کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنٰی نہ ملا ہو: جسٹس اعجاز الاحسن

Oct 19, 2022 | 15:06:PM

 (24 نیوز) نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنی نہ ملا ہو، تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنی ہوگئے ہیں۔

 چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنی نہ ملا ہو، تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنی ہوگئے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے جو غلط نہیں کہا جا سکتا، بظاہر افسران کو عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں آٹھ ارب سے زائد ریکوری ہوئی۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی ؟ وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عوامی عہدیداروں کیلئے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں، مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے، کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا فوج کو نیب قانون سے استثنی کیوں دیا گیا ہے؟ سارا پیسہ اور کاروبار تو فوج کے پاس ہے، کیا فوج احتساب سے بالاتر ہے ؟ ملک میں سب سے بڑا کاروبار فوج کرتی ہے، عمران خان نے فوج کے احتساب کا نقطہ درخواست میں کیوں نہیں اٹھایا، نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے قانون میں پھنس جائے گا، آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے، احتساب کیلئے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم میں نجی افراد کے جرائم کو نکال دیا گیا ہے، آمدن سے زائد اثاثہ جات پر اس وقت کارروائی ہوگی جب کرپشن ثابت ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈی کریمینلائز کر دیا گیا ہے، ریمانڈ کتنا ہو ضمانت کیسے ہوگی ان ترامیم پر آپکا اعتراض نہیں۔ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ اچھی ترامیم ہیں ان پر اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات سمیت نیب قانون سے جرائم نکالے گئے، کیا ان جرائم کے خلاف دوسرے قوانین موجود ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم سے کونسے جرائم ختم کر دئیے گئے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کر جرائم کو ختم کر دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کا جرم آج بھی نیب قانون میں موجود ہے، کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائن کا جائزہ بھی لے گی، عدالت پارلیمنٹ کیساتھ چالاکی کو کیسے منسوب کر سکتی ہے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے جاتے، اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، آمدن سے زائد اثاثہ جات میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل کو کوئی عدالت آکر کہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے، جرم ثابت کرنے کا بوجھ کس پر ہوگا، یہ بحث عدالت نہیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی توازن ہوتا ہے، عام شہری کے حقوق ہیں تو دوسری طرف قومی مفاد اور معاشرے کے بھی بنیادی حقوق ہیں، دونوں کے مابین توازن ہونا چاہیے، آپ انفرادی انفرادی کو فائدہ ملنے کو معاشرے کے حقوق کیساتھ لنک کر رہے ہیں، اگر دیگر فورمز پر کیسز جائیں تو کیا ہوگا ہمیں اس پر معاونت درکار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اپنے دلائل مکمل کرنے کیلئے مزید کتنا وقت درکار ہے۔ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ میں چار سماعتوں میں دلائل مکمل کر لونگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون عوام مفاد کیلئے نقصان دہ کیسے ہے، یہ سوال اہم ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں