(ویب ڈیسک) گلوکارہ مومنہ مستحسن کی جانب سے اسرائیل حماس تنازع پر غیر جانبدارنہ بیان دینے پر سوشل میڈیا صارفین بھڑک اٹھے، بعدازاں گلوکارہ نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انسانوں کے قتل کی مذمت کرنے پر پاکستانی ٹوئٹر صارفین شدید ردعمل دیں گے۔
مومنہ مستحسن نے گزشتہ روز اپنی ٹوئٹ پر فلسطینی اور اسرائیلی شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ گلوکارہ نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’معصوم جانوں کے ضیاع پر میں اپنے یہودی دوستوں کے لیے غمگین ہوں، کئی دہائیوں سے روزانہ بے شمار جانوں کے ضیاع پر میں فلسطین کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہوں‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’مزید کتنی جانیں ضائع ہوں گی؟ قبضہ اور مظلوم طبقے کو ایک ساتھ سزا دینا انسانیت کے خلاف ہے۔‘
گلوکارہ کی جانب سے صرف فلسطین کی کھل کر حمایت نہ کرنے پر پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے مومنہ مستحسن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور جنگی جرائم کر رہا ہے اور گلوکارہ نسل کشی کو نسل کشی بھی نہیں کہہ سکتی۔‘
ایک اور صارف نے فلسطینی نژاد امریکی ماڈل بیلا حدید کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ بیلا حدید نے ملین ڈالرز کا معاہدہ خطرے میں ڈال کر فلسطین کی کھل کر حمایت کی اور سچائی کے ساتھ کھڑی رہی لیکن مومنہ مستحسن فلسطین کی کھل کر حمایت اس لیے نہیں کرسکتی کیونکہ ان کے یہودی دوست ناراض ہوجائیں گے۔’
رافع نامی صارف نے مومنہ مستحسن کی یوکرین سے متعلق پرانی ٹوئٹ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے یوکرین روس تنازعہ میں صرف یوکرین کی حمایت کی تھی لیکن اب وہ غیر جانبدارانہ بیانات دے رہی ہے، اس سے بہتر تھا کہ وہ کوئی بیان ہی نہ دیتیں۔‘
پاکستانیوں کی جانب سے کڑی تنقید کے بعد مومنہ مستحسن نے ردعمل دیتے ہوئے حیرانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’کبھی نہیں سوچا تھا کہ انسانوں کے قتل کی مذمت کرنے پر پاکستانی ٹوئٹر صارفین کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نہیں مانتی کہ اسرائیل کی ریاست تمام یہودیوں کی نمائندگی کرتی ہے، جس طرح میں نہیں مانتی کہ بھارتی حکومت تمام ہندوؤں کی نمائندگی کرتی ہے اور نہ ہی پاکستانی حکومت تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔‘
مومنہ مستحسن نے وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ سیاست، مذہب یا عقائد کے علاوہ کسی بھی چیز سے زیادہ اہم انسانی جان اور انسانیت کا تحفظ ہونا چاہیے۔‘
گلوکار کا کہنا تھا کہ ’اگر میں ٹوئٹر پر وہ باتیں شئیر کررہی ہوں جو انسٹاگرام پر نہیں کررہی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر کوئی مجھ پر تنقید اور غلط زبان کا استعمال کرے۔‘
انہوں نے یہ بھی وضاحت دی کہ ’میں اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہوں، فلسطینی عوام دہائیوں سے مظلوم، قبضے کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے، اس نسل کشی کو روکنے کی ضرورت ہے۔‘
مومنہ مستحسن نے مزید لکھا کہ ’تاہم اگر ظالم قصوروار ہے تو وہاں پر عام شہریوں کی ہلاکتوں پر بھی افسوس کرنا چاہیے۔‘