صحافیوں پر ہتک عزت کے مقدمات کیوں ہوتے ہیں؟
مبشر مجید مرزا
Stay tuned with 24 News HD Android App
انٹرنیشنل جرنلسٹ رائٹس کونسل کے مرکزی چیئرمین شیخ خالد مسعود ساجد بتاتے ہیں کہ وہ 1983ء سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، 1994ء میں وہاڑی کے نواحی علاقے ماچھیوال کے رہائشی ایک ڈھولچی نے علاقے کی پولیس کو ایک درخواست گزاری جس میں بیان کیا کہ اگر کسی طرح بھی اس کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار اس وقت کا معروف سیاسی رہنما اور ایک قومی اخبار کا چیف ایڈیٹر اکبر علی بھٹی ہوگا۔ لوگوں نے اس کی بات پر کان نہ دھرا لیکن اتفاق سے وہ چند روز بعد ہی انتقال کر گیا، اس طرح اکبر علی بھٹی کیخلاف قتل کی ایف آئی درج ہو گئی جس کے بارے میں 2 سیاسی رہنماؤں نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اکبر علی قاتل ہے ان کے بیان پرخالد مسعود نے قومی اخبار میں خبر بھیج دی جس کے بعد اکبر علی بھٹی کی جانب سے 30 کروڑ کا دعوی ہتک عزت دائر کردیا گیا۔
وہ بتاتے ہیں حالانکہ انہوں نے باقاعدہ ایف آئی آر اور 2 سیاسی رہنماؤں کے بیان پر خبر شائع کی تھی لیکن پھر بھی انہیں ہتک عزت کے سنگین مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جو چند ماہ میں ہی ختم ہوگیا کیونکہ شیخ خالد کے وکیل کی جانب سے دلائل دیے گئے کہ جب خبر شائع ہوئی تب نہ تو وہ معاون خصوصی تھے اور نہ ہی ممبر قومی اسمبلی تھے جس کی وجہ سے علی اکبر بھٹی نے کیس کی پیروی نہ کی اور عدم پیروی کی وجہ سے کیس داخل دفتر ہوگیا۔
خالد مسعود کے مطابق اس کے بعد ان پر آج تک ایسا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھا ہے جن کو نظرانداز کرکے کوئی بھی ہتک عزت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
خالد مسعود کا کہنا ہے کہ ہمیشہ خبر یا آرٹیکل کی تحریر میں چند نکات ایسے ہوتے ہیں جن پر عمل کرکے ہتک عزت کے مقدمے سے بچا جا سکتا ہے، ان میں سب سے اہم یہ کہ رپورٹر کبھی بھی خبر میں اپنی ذاتی رائے شامل نہ کرے بلکہ خبر سے متعلقہ افراد کا بیان قلم بند کرے اور کسی ڈیٹا کی صورت میں ثبوت ضرور جمع کرے۔ کسی کی اڑائی ہوئی افواہ پر کان دھرنے کی بجائے خبر کی مکمل طور پر تصدیق کرے۔ اس کے علاوہ خبر کسی بھی شخص کے بارے میں ہو اس کا مؤقف لیے بغیر نامکمل خبر شائع ہونے کیلئے نہ بھیجے۔ یہ چند اصول اپنا کر ڈیفامیشن سے بچا جا سکتا ہے۔
صحافیوں کو آئے روز مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے جن میں سے ہتک عزت کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی خبر لگاتے وقت عوام کی عزت کا خیال نہیں رکھتے۔ ایسی صورت حال میں یا تو متاثرہ شخص خاموش ہو جاتا ہے یا پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔
ہتک عزت سے مراد کسی پر بلاوجہ تہمت لگانا، معاشرے میں موجود کسی بھی شخص کی عزت خراب کرنا اور دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا ہے جس سے انہیں معاشرے میں مالی یا شخصی لحاظ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ ہتک عزت کے مقدمات کو ڈیفامیشن آرڈینینس 2002ء کے تحت ڈیل کیا جاتا ہے۔
کسی پر عیب لگانا قابل تعزیر جرم ہے، تعزیرات پاکستان کے سیکشن 499 سے 502 تک ڈیفامیشن کے بارے میں ہیں جن میں ہتک عزت بھی قابل تعزیر جرم ہے۔
ہتک عزت 3 طرح سے ہوتی ہے اشارے کنایہ سے، بولنے سے، لکھ کر یا اخبار میں خبر لگا کر کسی کی ہتک عزت کرنا۔
اس کی سزا 2 سال قید اور جرمانہ ہو سکتی ہے۔ وہ شخص جو ایسی افواہ یا جھوٹ پھیلانے میں پہل کرتا ہے اس کی سزا 5 سال قید اور ایک لاکھ جرمانہ تک ہوسکتی ہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 19 ملک کے ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا مکمل حق دیتا ہے پھر ان پر ہتک عزت کا قانون کیسے لاگو ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے آئین میں واضح طور پر شق نہیں بلکہ پیرا نمبر 3 میں یہ بات موجود ہے کہ اس قانون کے تحت ریاست مخالف سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے اور آزادی اظہار رائے کو ایک حد کے اندر رہتے ہوئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ہتک عزت کے قانون کے تحت 2 طرح کے ڈیمجز کلیم کیے جا سکتے ہیں۔
جنرل ڈیمجز، اس میں ہتک عزت کرنے والے شخص کو معافی مانگنے کا کہا جاتا ہے اور اس کے تحت عدالت 25 ہزار جرمانہ ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے اور اگر یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے تو اس کی ایک تردیدی خبر شائع کرنا بھی لازمی ہوتا ہے اور اگر افواہ پھیلانے والا مرکزی شخص (اوریجنیٹر) ہو تواسے 50 ہزار سے 3 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے، صحافی کو جو نوٹس بھیجا جاتا ہے اس میں واضح لکھا ہوتا ہے کہ معافی بھی مانگی جائے اور خبر کی تردید بھی لگائی جائے۔ اگر رپورٹر قصور وار ہو اور معافی مانگ بھی لے تو ادارہ کسی صورت خبر کی تردید لگانے کیلئے تیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سول سوٹ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ معافی مانگنے کے ساتھ تردیدی خبر لگانا بھی ضروری ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا مقامی لوگ میڈیا پر اعتماد کرتے ہیں؟
سپیشل ڈیمجز، اگرمتاثرہ شخص کا کاروبار متاثر ہوا ہو یا اسے ملازمت سے نکال دیا جائے یا مالی نقصان ہو تب عدالت فریقین کو سن کر نقصان کے حساب سے فیصلہ کرتی ہے یہ جرمانہ 10 لاکھ روپے تک ہوسکتا ہے۔
ہتک عزت کا مقدمہ وکیل کے ذریعے سیشن کورٹ میں فائل کرنا ہوتا ہے اس کیلئے مکمل تفصیل لکھ کر 14 دن کا لیگل نوٹس پارٹی کو بھیجا جاتا ہے اور اس کی طرف سے جواب آئے یا نہ آئے تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سیشن کورٹ میں کیس فائل کیا جاتا ہے جبکہ کورٹ 90 دن میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوتی ہے کیونکہ یہ سپیشل ریمڈی پراسس ہے ۔
فیصلے کیخلاف اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے۔ جس کا فیصلہ ججز نے 60 دن میں کرنا ہوتا ہے۔ مقدمے کیلئے کورٹ فیس لازمی جمع کرانا ہوتی ہے 25 ہزار تک کے کلیم پر کورٹ فیس لاگو نہیں ہوتی جبکہ 25 ہزار سے زائد رقم پر کل رقم کا 5۔7 فیصد کورٹ فیس لگتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کورٹ فیس 15 ہزار تک ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی کسی کے حوالے سے ایسی پوسٹ لگانا جس سے اس کی عزت پر آنچ آئے وہ بھی ہتک عزت میں شامل ہے اور قانون کے مطابق کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے کوئی مخصوص رقم نہیں جو مدعی اپنی عزت کے نقصان کے عوض مطالبہ کر سکتا ہے بلکہ جتنی چاہے رقم دعوے میں تحریر کرسکتا ہے۔
ہتک عزت کا دعویٰ صحافی پر صرف اخبار میں خبر لگانے کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹ کرنے سے بھی ہوسکتا ہے جو متعلقہ شخص کو ناگوار گزرے یا اس کی شخصیت کے بارے میں افواہ پھیلائی جائے۔
وہاڑی کی تحصیل بوریوالا کے پریس کلب کے صدر چوہدری اصغر علی جاوید بتاتے ہیں کہ ایک واٹس ایپ گروپ جس کے وہ ایڈمن ہیں، میں ایک ممبر نے سابق ایم پی اے چوہدری ارشاد آرائیں کے حوالے سے ایک خبر پوسٹ کی۔ وہ بتاتے ہیں بنیادی طور پر تو خبر سابق ایم پی اے کے حق میں تھی لیکن ایک فقرے پر موصوف کو اعتراض تھا جس کی پاداش میں انہوں نے ہتک عزت کا الزام لگاتے ہوئے 5 کروڑ کا دعویٰ کردیا، ایک فقرہ ’سابق ایم پی اے بے بسی کی تصویر بنے رہے‘ لکھنے پر پوسٹ کرنے والے اور ایڈمن دونوں پر دعویٰ کردیا گیا جس کا ٹھوس جواز نہ ہونے کی وجہ سے مارچ 2021ء میں واپس لے لیا گیا۔
اصغر علی کا کہنا ہے کہ ہتک عزت کا دعویٰ یا تو کوئی بھی معروف شخصیت خبر لگانے والے رپورٹر پر دباؤ ڈالنے کیلئے کرتی ہے یا پھر رپورٹر کسی عناد میں رپورٹنگ کرتے ہوئے ذاتیات پر اتر آتا ہے اور اپنی طرف سے ایسی باتیں شامل کر دیتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ خبر ایک پارٹی بننے کی بجائے ایک غیرجانبدار صحافی بن کر رپورٹ کی جائے۔
وہاڑی سے تعلق رکھنے والی سابق ممبر صوبائی اسمبلی شمیلہ اسلم بتاتی ہیں کہ 2009ء میں ان کیخلاف حافظ سلطان (فرضی نام) نامی صحافی نے ایک خبر لگائی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ انہیں مخصوص نشست پر ممبر صوبائی اسمبلی بنانے کے پیچھے کرپشن اور سفارش شامل ہیں، اس کے علاوہ دیگر الزامات بھی لگائے گئے۔ جب میں اسمبلی سیشن کیلئے پنجاب اسمبلی پہنچی تو وہاں معلوم ہوا کہ خبر اسمبلی تک بھی پہنچ چکی ہے حالانکہ سب باتیں بے بنیاد تھیں، اس لیے صحافی کیخلاف 5 کروڑ روپے ہتک عزت کا دعویٰ کیا اس دوران صحافی سے کئی بار رابطہ کیا لیکن اس نے کال تک نہ اٹھائی۔ چونکہ میرا مقصد صحافی کو احساس دلانا تھا اس لیے پیغام بھیجا کہ اپنے کیے پر معافی مانگو تو بات ختم کر دوں گی لیکن اس نے توجہ نہ دی۔
کیس 3 سال چلتا رہا آخر کار 5 لاکھ روپے صحافی کیخلاف ڈگری ہوگئے اس کے بعد صحافی نے بہت سے لوگوں کے ذریعے معافی مانگنے کی کوشش کی تب اس کو سمجھایا کہ بے سرو پا باتیں لکھ کر اچھا صحافی نہیں بنا جا سکتا۔ شمیلہ اسلم کہتی ہیں کہ آج بھی ہائیکورٹ میں کیس پینڈنگ پڑا ہے کارروائی کرسکتی ہوں لیکن میرا مقصد پیسے وصولی یا کسی کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ احساس دلانا تھا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ہر شعبہ کے لوگ جب بھرتی ہوتے ہیں تو باقاعدہ ٹریننگ لے کر اپنی ذمہ داریاں شروع کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ مقامی طور پر میڈیا نمائندگان بغیر ٹریننگ کے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے سے گریز نہیں کرتے حالانکہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے حکومت کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ان کا ماننا ہے کہ صحافی کے ساتھ ساتھ اخبار اور چینل کے مالکان کا بھی قصور ہے جو چھوٹے شہروں میں چند ہزار کے لالچ میں کسی اہلیت کی جانچ کیے بغیر پریس کارڈ جاری کر دیتے ہیں۔
جواب میں صحافی حافظ سلطان بتاتے ہیں کہ دراصل متعلقہ اخبار کا نمائندہ کوئی اور تھا جبکہ اس نے صرف اپنی ایک میل سے ادارے کو خبر ارسال کی تھی لیکن سارا الزام اس پر آ گیا۔
قومی اخبار کے رپورٹر عمران حفیظ بتاتے ہیں کہ ان پر صحافتی زندگی میں متعدد بار ہتک عزت کے دعوے ہوئے جن میں سے ایک ڈگری بھی ہوا لیکن بعد میں صلح صفائی سے معاملہ نمٹا لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی طور پر ایک بات مشہور ہے کہ جب تک صحافی پر ہتک عزت کا دعویٰ نہ ہو وہ اصل صحافی نہیں بنتا جبکہ مختلف مکاتب فکر کے لوگ صحافیوں پر حقائق بیان کرنے کی پاداش میں بھی ہتک عزت کا دعویٰ کر دیتے ہیں لیکن ٹھوس شواہد نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک صحافی کو باقاعدہ صحافتی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی رپورٹنگ کرنی چاہیئے۔ عمران کے مطابق صحافیوں پر ہونے والے ہتک عزت کے دعوؤں میں سے 80 فیصد بے نتیجہ رہتے ہیں۔
نوجوان قانون دان، مرکزی چیئرمین لاء ویلفیئر ایسوسی ایشن عبدالوہاب بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر ایک دکاندار گاہک کی تلاشی لیتا ہے تو اس پر ہتک عزت کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ کسی کی یوٹیوب ویڈیو پر تنقید کرنا، کسی پبلک سرونٹ کی کارکردگی پر تنقید کرنا، عدالتی فیصلے پر تنقید کرنا بشرطیکہ کیس زیر سماعت نہ ہو اور مجاز افسر کی جانب سے ماتحت کی سرزنش کرنا ایسے معاملات ہیں جن پر ہتک عزت کا قانون لاگو نہیں ہوتا اور دعویٰ دائر نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے ضلعی صدر محمد عرفان چوہدری بتاتے ہیں کہ عام طور پر ہتک عزت کا دعویٰ صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے روکنے کیلئے کیا جاتا ہے، اس ضمن میں جو رپورٹر پیشہ ورانہ اصول و ضوابط کو مدِنظر رکھتے ہوئے رپورٹنگ کرتے ہیں اگر ان کیخلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر ہوتا بھی ہے تو وہ ثبوت کی صورت میں حقائق بیان کرکے بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جنرنلسٹ یونین کے عہدیدار کے طور پر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کسی رپورٹر پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر ہو جائے تو اسے حقائق کی تلاش میں معاونت فراہم کی جائے اور اگر واقعی کسی رپورٹر کی غلطی سامنے آتی ہے تو اس سلسلے میں معاملات مثالحتی انداز میں معافی تلافی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
حکومتی عہدیدار سابق ممبر صوبائی اسمبلی میاں ثاقب خورشید بتاتے ہیں کہ ہتک عزت کا معاملہ صحافی اور متاثرہ شخص کا آپسی معاملہ ہے جس کا فیصلہ معزز عدالت نے کرنا ہوتا ہے اس لیے ہم اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔
نوٹ: یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے، لکھاری کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر