(24نیوز)پاکستانی فلموں کو متعدد شاہکارگیت دینے والی معروف گلوکارہ زبیدہ خانم کو مداحوں سے بچھڑے11برس بیت گئے مگران کے گائے ہوئے یادگار نغمے آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں،انہیں ملکہ ترنم نورجہاں کے بعد پچاس کی دہائی کی سب سے کامیاب گلوکارہ ہونے کا اعزازحاصل ہے۔
1935ء کومتحدہ ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہونے والی زبیدہ خانم قیامِ پاکستان کے بعد خاندان کے ہمراہ لاہور آگئی تھیں،انہوں نے فلمی سفرکاآغاز 1951ء میں ایک فلم”بِلو“سے کیا لیکن شُہرت فلم”بابو“سے ملی۔کیریئر کے ابتدائی برسوں میں وہ اداکاری بھی کرتی رہیں،اس دوران مورنی اور پاٹے خان جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، تاہم اصل شناخت 1953ء میں اس وقت ملی جب وہ بطور پلے بیک گلوکارہ سامنے آئیں اور فلم”شہری بابو“کے لیے گائے ہوئے گیت بہت مقبول ہوئے تھے۔
زبیدہ خانم کااگرچہ موسیقی کے کسی بڑے روایتی گھرانے سے تعلق نہیں تھا،اس کے باوجود ان کی دلکش آواز نے چند سالوں میں ہی انہیں صفِ اوّل کی گلوکارہ بنا دیا،وہ اس دور میں انڈسٹری میں آئیں جب یہاں بڑے بڑے نام موجود تھے،انہی دنوں مہدی حسن جیسے فنکار اپنے کیریئر کا آغاز کر رہے تھے،زبیدہ خانم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ملکہ ترنم نورجہاں کی موجودگی میں اپنا لوہا منوایا،وہ شاید واحد گلوکارہ تھیں جن کے گائے ہوئے بیشتر نغمے سُپرہٹ ہوئے۔
اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے کم وبیش ڈیڑھ سو اُردو اور پنجابی فلموں کے لیے 244گیت گائے جن میں سے بیشتر سُپرہٹ ہوئے،ان گانوں میں آئے موسم رنگیلے سُہانے،میری چنّی دیاں ریشمی تنداں،سیو نی میرا دل دھڑکے،دِلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے، کیا ہوا دل پہ ستم،سیو نی میرا دل دھڑکے،دوپٹہ بے ایمان ہوگیا،اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے،وے میں نار پٹولے ورگی،ریشم دا لاچا لک وے ، مرا دل چنا کچ دا کھڈونا،گوری گوری چاننی دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھا اورچھڈ جانویں ناں چنان بانہہ پھڑکے جیسے ان کے بہت سے گانے آج بھی اسی طرح مقبول ہیں۔
زبیدہ خانم نے اپنے کیریئر کے عروج پر ہی فلمی صنعت کے نامور کیمرہ مین ریاض بخاری سے شادی کرکے موسیقی کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا تھا،لیکن وہ میلاد اور درود و سلام کی محافل میں باقاعدگی سے شریک ہوتی رہیں۔یہ نامور گلوکارہ 19اکتوبر2013ء کو78 برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئی تھیں،انہوں نے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو سوگوار چھوڑاتھا،ان کاجس روز انتقال ہوااس روز ان کے شوہر ریاض بخاری کی برسی تھی۔