شہریار آفریدی کا امریکا میں غیر سنجیدہ رویہ۔پروگرام ڈی این اے میں پینل کی مذمت

Sep 19, 2021 | 23:02:PM
شہریار آفریدی۔امریکا۔تلاشی ۔مذمت
کیپشن: ڈی این ایے پروگرام کے شرکا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز ) وفاقی وزیر امور کشمیر شہریار آفریدی کو جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ نیویارک پر پوچھ گچھ کے لئے روکا گیا جس کے ردعمل میں انہوں نے مین ہٹن میں غربت کے حوالے سے ایک وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ 24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں تجزیہ کار حضرات سلیم بخاری، افتخار احمد ،پی جے میر اور جاوید اقبال نے وفاقی وزیر کی جانب سے سرکاری دورے کے دوران دوسرے ملک میں اس غیر سنجیدہ طرز عمل کی شدید مذمت کی۔
 افتخار احمد نے کہا کہ شہریار آفریدی نے نیویارک کی غربت کا مذاق ا±ڑایا ہے لیکن یہ بھول گئے کہ پاکستان میں عوام کی کثیر تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔مہنگائی اور بے روزگاری سے روز بروز غربت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ یہاں لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں جبکہ وفاقی وزیر امریکا کو غریب ترین ملک ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔
پی جے میر کا کہنا تھا آپ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں چلے جائیں آپ کو اس طرح کے افراد مل ہی جاتے ہیں۔ شہریار آفریدی بھول گئے کہ امریکی ایئر پورٹ پر شوکت عزیرکی موجودگی میں شریف الدین پیرزادی کو ہینڈز اپ کرا دیا گیا تھا۔ شہریار آفریدی کو اس ردعمل سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ شہریار آفریدی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے نیویارک پہنچے ہیں جہاں افغانستان جیسے اہم اور حساس ترین معاملے پر بحث ہو گی اور دنیا بھر کے سربراہان مملکت یا ان کے نمائندے موجود ہیں۔ ایسے اہم دورے پر وفاقی وزیر لابنگ اور تیاری پر توجہ دینے کی بجائے مین ہٹن کی سڑکوں پر وڈیو بنا رہے ہیں جو انتہائی غیر سنجیدگی کا مظہر ہے ، جاوید اقبال کا کہنا تھا شہریار آفریدی کو وزیر اعظم کے لنگر خانوں پر تنقید بری لگتی ہے یہ بھی بتا ئیں کہ امریکا میں 12 سے 15 ڈالر فی گھنٹہ کم از کم اجرت ہے صرف 50 ڈالر انشورنس پر صحت کی تمام سہولیات میسر ہیں۔ وہاں سوشل سکیورٹی موجود ہے ، کورونا میں شہریوں کو گھر پر بے روزگاری الاو¿نس دیا گیا اور آپ نے ادویات کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور کر دیں ۔شہریار آفریدی اپنی حکومت کےلئے شرمندگی با باعث بنے ہیں ۔
پینل نے الیکشن کمیشن پر حکومتی وزرا کے اعتراضات اور چیف الیکشن کمیشن کے استعفے پر بھی اظہار خیال کیا۔ افتخار احمد کا کہنا تھا 26 اکتوبر 2017 کو سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ایک سو الیکٹرانک مشینوں کو تجرباتی طور پر استعمال کیا گیا 14 نومبر کو کو اس کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی جس کے مطابق 26 مشینوں میں کاغذ پھنس گیا۔ تقریباً 22 مشینوں کی بیٹریاں ختم ہو گئیں اور متعدد مشینوں کے کی پیڈ سخت ہونے کے باعث دشواری کا سامنا کرنا پڑ ا ، سلیم بخاری نے کہا کہ اگر ووٹنگ مشین کے بعد ووٹر کو مشین سے نکلنے والا پرنٹ بھی دیا جاتا ہے تو ووٹ کا تقدس اور خفیہ ووٹنگ کا تصور متاثر ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے شفاف الیکشن کرانا اگر حکومت الیکٹرنک ووٹنگ پر بضد ہے تو اسے قانون سازی کرنا ہو گی جو اپوزیشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حکومت آرڈیننس کو قانون سازی پر ترجیح دے رہی ہے لیکن آرڈیننس کی بھی ایک مدت ہوتی ہے۔ 
جاوید اقبال کا کہنا تھا چیف الیکشن کمشنر کے معاملے کو حکومت نے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور ووٹنک مشینوں پر ضدی بچے کی طرح کا رویہ اختیار کر رہی ہے۔۔ پینل نے کراچی مین گرین لائن بسوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا مگر اہم عوامی منصوبوں میں تاخیر کے باعث اخراجات میں اضافے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ۔