اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی اور معیشت کو لگی دیمک کیخلاف جنگ کا آغاز
تحریر:احمد منصور
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان کی معیشت کو کرپشن کے عفریت کا سامنا تو ہمیشہ سے ہی رہا ہے جوہر سطح پر گورننس کے نظام میں بری طرح سرایت کر چکا ہے، ہر دور کے حکمران اس کے بینیفشری رہے ہیں ، جنہوں نے قابو پانے والوں کی نااہلی کا نوٹس لینا ہے، وہ بھی اپنے اپنے مفادات کے اسیر اور مافیاز کے سرپرست ہیں، جنہوں نے اس سارے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا ہے وہ سیٹھ و سرمایہ دار سسٹم کے تحت مکمل طور پر یرغمال بن کر ملک کو چونا لگانے والے اس پورے نیٹ ورک کو مسیحا بنا کر پیش کرنے کی مارکیٹنگ کا ٹھیکہ پکڑ چکے ہیں۔
کرپشن نیٹ ورک کی خوبی یہ ہے کہ یہاں کوئی کسی کا مخالف نہیں، اس میں ہر سیاسی جماعت ، رہنماؤں، اداروں کی نمائندگی موجود ہے،جانے والے حکمران کے قریبی آنے والے حکمران کے فیورٹس کے لیے جگہ چھوڑ دیتے اور نیٹ ورک سے سب مستفید ہوتے رہتے،ایسے میں اگر یہ سوچا اور سمجھا گیا کہ نگران سیٹ اپ ایک واحد ایسا موقع ہو سکتا جب کرپشن نیٹ ورک پر حقیقی اور صحیح معنوں میں ہاتھ ڈالا جا سکتا تو چند ہفتوں میں سامنے آنے والے نتائج کے بعد کہا جا سکتا کہ کیا خوب سوچا سمجھا گیا ہے۔واضح ہو گیا کہ
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے خاموشی سے یہ باگ دوڑ سنبھالی ہے ، پاکستان بچانے کے اس ناگزیر آپریشن میں پاک فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی پوری قیادت حکومتی مشینری کے ساتھ ایک ڈائریکشن پر عمل کرتی نظر آ رہی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم، ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر اور ادارے کی پوری ٹیم کا کلیدی کردار ہے۔ جب ملک بھر سے چینی، آٹا، پٹرول ، منشیات اور ڈالرز مافیا زکے خلاف کریک ڈاؤن کی خبریں آنے لگیں تو ہر جانب سے مایوس عوام کو یقین کرنے میں تھوڑا وقت لگا کہ یہ بھی شاید ماضی کی طرح کی ایک وقتی سرگرمی ،دوسرے لفظوں میں آنیاں جانیاں ہی ہیں، لیکن اب صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔
عملی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نتیجہ اخذ کر کے دائمی مرض کا اصل علاج تشخیص کر لیا گیا ہے،ملکی معیشت کی تباہ حالی میں بہت سے عوامل ہیں لیکن دیمک کی طرح معیشت کی بنیادیں ہلانے میں اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی سرفہرست ہے،یوں تو کارروائیاں ملک بھر میں شروع ہوئیں لیکن انسداد سمگلنگ و انسداد منشیات کارروائیوں کی ہوشربا تفصیلات سب سے زیادہ بلوچستان سے آنے لگیں ،چمن سے تافتان اور جیونی کے ذریعے اسمگلنگ کے قصے سن رکھے تھے، سوچا اب اگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں یہ بڑا کام ہو رہا ہے تو وہاں جا کر حقائق دیکھے جائیں، کراچی سے براستہ گوادر ، کوئٹہ تک کا 1700کلومیٹر کا طویل سفر بلوچستان میں اسمگلنگ کے خلاف جاری آپریشن اور نتائج کو جانچنے میں اہم رہا ہے۔
سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی ہدایات پر کور کمانڈر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے جو ایکشن کیا اس کی یقینا ستائش ہوئی ہو گی، اس میں انٹیلی جنس اداروں خصوصا آئی ایس آئی کا اہم کردار اور پھر ایف سی بلوچستان کالیڈ رول جب کہ کسٹمز، ایف بی آر سمیت دیگر اداروں کا مربوط تعاون بھی شامل ہے،محض چند ہفتوں میں نہ صرف چینی کی غیر قانونی آمدورفت پر قابو پا لیا گیا بلکہ گلستان اور قلعہ عبداللہ میں انسداد منشیات کا تاریخی کامیاب آپریشن کیا گیا، ایرانی پٹرول و ڈیزل کو پنجاب، سندھ و خیبر پختونخوا اسمگل کرنے کا نیٹ ورک بھی توڑ دیا گیا، چمن بارڈر پر بارڈر مینجمنٹ کے جو انتظامات ہیں وہ قابل ستائش ہیں، گذشتہ چھ ماہ میں وہاں بد انتظامی کا کوئی ایک واقعہ بھی رپورٹ نہیں ہوا حالانکہ روزانہ بیس پچیس ہزار افراد کی آمدورفت ہوتی ہے، کم و بیش ایک ہزار گاڑیاں صرف اس ایک بارڈر سے افغانستان آتی جاتی ہیں، یہ سب کام ایف سی نے ایسے سنبھالا ہوا کہ ایک ایک پل کا ریکارڈ مرتب ہو رہا، کیمرے، اسکینرز اور شخصی تلاشی سے یقینی بنایا جاتا کہ اسمگلنگ کسی صورت نہ ہو سکے۔
اسی طرح سرحدوں کی جانب جانے والے راستوں پر بارہ مشترکہ چیک پوسٹوں کے قیام سے صوبے کے اندر بھی غیر قانونی نقل و حرکت کو انتہائی محدود کر دیا گیا ہے۔ آج جب ستمبر کے تیسرے ہفتے یہ تحریر لکھی جا رہی ہے، بلوچستان میں اسمگلنگ پر قابو پایا جا چکا ہے، اسی وجہ سے ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں فوری کمی آئی ہے۔
یہاں ایک نکتہ بہت اہم ہے کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے عوام کی اکانومی بارڈر ٹریڈ سے منسلک ہے، بارڈر مارکیٹس کے ذریعے ایران اور افغانستان سے تجارت کوقانونی تحفظ دینے کے منصوبے سے مقامی آبادی کو کافی ریلیف ملا ہے ، اسے تیز رفتاری سے مکمل کیا جانا چاہیے، پاکستان کے مرکز سے ہزاروں کلومیٹر دور کے ان علاقوں میں پٹرول سمیت اشیائے ضروریات پہنچانا ناقابل عمل ہے، فاصلے طویل ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے عوام کو ایران سے سستا پٹرول حاصل کرنے کی قانونی اجازت فراہم کی گئی ہے،یہ اسمگلنگ نہیں ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تب بنتی ہے جب باقی پاکستان کا پٹرول پمپ مافیا یہ ایرانی تیل بلوچستان سے حاصل کر کے ناجائز منافع خوری کرتا ہے اور ٹیکس کی مد میں بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
دوسری طرف بلوچستان کے جن عوام کو یہ سستا تیل فراہم کرنا مقصود تھا، انہیں بھی دو سو ستر روپے لٹر تک مل رہا تھا،اب بلوچستان سے دیگر علاقوں میں ایرانی تیل کی اس غیر قانونی نقل و حرکت پر کڑا ہاتھ ڈالا گیا ہے، جس کی وجہ سے اب بلوچستان کے ان سرحدی علاقوں میں عوام کو سستا فیول حاصل ہو رہا ہے،ضرورت اس امر کی ہے ایرانی تیل کی مقامی سرحدی آبادی کے لیے دستیابی کو نہ روکا جائے وگرنہ ان کی پہلے سے ہی انتہائی مشکل زندگی مزید اجیرن ہو جائے گی۔
اس بلاگ کو سمیٹتے ہوئے یہ بیان کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ ملک میں مہنگائی کی وجوہات میں سے بلوچستان کے راستے افغانستان و ایران اسمگلنگ کو بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے، اس حوالے سے شور شرابہ کر کے بیانیہ بنا دیا جاتا ہے کہ سرحدوں پر جن کا کنٹرول ہے وہ مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ جب کہ حقیقت بالکل مختلف ہے، اسمگلنگ ایک وجہ تو ضرور ہے لیکن مہنگائی کے حوالے سے سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا میں ذخیرہ اندوزوں اور قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے ماہر سرمایہ دار مافیا کو قابو کرنا اصل کام ہے۔ یہ ذخیرہ اندوز مافیا اسمگلنگ کا شور مچا کر ملکی مارکیٹ میں اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے اور پھر ذخیرہ کردہ مال مہنگے داموں پاکستانی عوام کو ہی فروخت کر کے مال بنا لیتا ہے۔
کراچی، پشاور، راولپنڈی میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف چھاپوں کی سامنے آنے والی تفصیلات سے یہ بات ثابت بھی ہو رہی کہ ملکی معیشت کو لگی اس دیمک کی صفائی کا کام اب رکنے والا نہیں، کیوں کہ جن مافیاز پر اب ہاتھ ڈالا جا رہا ہے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ بھی تھم چکا ہے جو ثابت کرتا یہ مصنوعی تھا اورصریحا ملک دشمنی تھی ،پاکستان پر حقیقی حکمرانی کرنے والے اس کرپشن نیٹ ورک کو ختم کرنے کے مشن میں اگر نئے چیف جسٹس آف پاکستان بھی شامل ہو جائیں تو سونے پر سہاگہ ہو جائے اور پاکستان بچانے کے اس شاید آخری موقع کو کامیاب ہونے سے کوئی مافیا نہ روک سکے۔
(نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)