نئی آئینی ترمیم پر حکومت بری طرح ناکام کیوں؟مولانا کی گیم،ہوشربا انکشاف

Sep 19, 2024 | 09:09:AM

Read more!

(24 نیوز)جمعیت علماء اسلام کا سیاسی ترانہ مولانا آ رہا ہے، اس وقت ملکی سیاست کا ترانہ بنا ہوا ہے اور بڑی سیاسی جماعتیں اسی ایک ترانے پر جھوم رہی ہیں کیونکہ ملکی سیاست مولانا کے گرد گھوم رہی ہے جہاں مولانا کی یاری وہی پلڑا بھاری کل تک حکومتی جماعتیں مولانا سے ملاقاتوں کے بعد وکٹری کے نشانات بنا رہی تھیں تو آج تحریک انصاف مولانا کی میزبانی پر فتح کے گیت گا رہی ہے۔ آج پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد قیصر نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اپنی رہائش گاہ پر ظہرانے پر مدعو کیا، جہاں پہلے ہی سے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن ملاقات کے بعد باہر آئے تو میڈیا نمائندگان نے انہیں گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آج کی ملاقات میں کوئی بریک تھرو ہو پایا؟ جس پر مولانا فضل الرحمن نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر حکومت کا دیا گیا مسودہ مان لیا جاتا تو یہ قوم کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہوتی، اسی لیے حکومتی مسودہ مسترد کر دیا گیا۔
پروگرام’10 تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ بیان سے واضح طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت دفاعی پوزیشن میں ہے، جبکہ مولانا اور ان کی اتحادی جماعتیں مکمل طور پر فرنٹ فوٹ پر سیاست کر رہی ہیں۔ مولانا کا یہ کہنا کہ حکومت یوٹرن لے رہی ہے یا اپنے سابقہ مؤقف سے مکر رہی ہے، خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ “مسودہ تو تھا ہی نہیں”، تو پھر جو مسودہ عوام کے سامنے آیا، وہ کیا تھا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل میں مسودہ موجود تھا، لیکن اب حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے بہانے تراش رہی ہے۔

یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ حکومتی جماعتیں، خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن)، مولانا فضل الرحمن سے مایوس ہو چکی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ (ن) نے مولانا سے امیدیں چھوڑ دی ہیں، تو یہ غلط نہ ہوگا۔ اس کا عملی اظہار یوں بھی ہو رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کھل کر تسلیم کر چکے ہیں کہ آئینی مسودے کی تیاری میں پیپلز پارٹی نے اب قیادت سنبھال لی ہے۔

س وقت دو مسودے زیر غور ہیں: ایک وہ جو پیپلز پارٹی تیار کر رہی ہے اور دوسرا مولانا فضل الرحمن کا مسودہ۔ آئینی ترمیم کے حتمی مرحلے تک پہنچنے کے لیے، جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب حکومت کے پاس مولانا فضل الرحمن اور ان کے اتحادیوں کے آگے زیادہ گنجائش باقی نہیں رہی، اور وہ اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے نئی حکمت عملیوں کی تلاش میں ہیں-
مسودے کی تیاری دراصل حکومت کی ذمہ داری تھی، اور اس حوالے سے اہم حکومتی کردار، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہاں ہیں، اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ تاہم، وزیرِ اعظم شہباز شریف، جو دو روزہ سرکاری دورے پر برطانیہ جا رہے ہیں، ملک میں موجود نہیں ہوں گے۔ ایسے میں غالب امکان یہی ہے کہ حکومت کسی بھی مسودے کو پارلیمان میں پیش کرکے منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ نہ تو حکومت کے پاس مکمل عددی اکثریت ہے اور نہ ہی وہ اس پوزیشن میں نظر آتی ہے کہ آئندہ ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں کوئی اہم پیش رفت کر سکے۔

اب سوال یہ ہے کہ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اس دوران کیا کر رہے ہیں؟ آج وزیرِ قانون نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان سے ملاقات کی، جس کا مقصد وکلاء برادری سے تجاویز لینا اور ان کے ساتھ اتفاقِ رائے پیدا کرنا تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا وکلاء برادری اس آئینی مسودے پر اتفاقِ رائے کرے گی؟ کیا وہ عدالتی اختیارات کو محدود ہوتے دیکھ کر وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ اس مسودے کی حمایت کرنے کو تیار ہوں گے؟ دیکھئے اس ویڈیو میں 

مزیدخبریں