کسی سیاسی اتحاد کے بغیر اپنی تحریک خود چلائیں گے:مولانا فضل الرحمٰن
اگر ہمیں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دے دی جائے تو ہمیں اپنی شکست پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ماضی قریب میں سیاسی اتحادوں کے تجربے اچھے نہیں رہے ہیں، ہم مزید نہ کسی کو شرمندہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ خود ہونا چاہتے ہیں:سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف)
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اگر ہمیں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دے دی جائے تو ہمیں اپنی شکست پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ماضی قریب میں سیاسی اتحادوں کے تجربے اچھے نہیں رہے ہیں، ہم مزید نہ کسی کو شرمندہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ خود ہونا چاہتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی رہائشگاہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کسی سیاسی اتحاد کے بغیر اپنی تحریک خود چلائے گی،انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن کا کردار ہم پارلیمنٹ کے اندر بھی کریں گے اور باہر بھی ، مسائل کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد ہو سکتا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے اب جا کر اپنے داخلی معاملات کو سنجیدگی سے لیا ہے، شاید وہ اس قابل اب جا کر ہوئے ہیں، ہم ان معاملات میں ان کے فریق نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 2018 کے بعد اسمبلیاں اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہیں، اس سیاست میں جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے، 2018 کے بعد فوجی سربراہ کی منشا کے مطابق انتخابی نتائج آرہے ہیں جو کہ آمرانہ انداز ہے، بھارت ،امریکا اور برطانیہ میں یہ سوال کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ ہمارے ہاں ہر الیکشن متنازع ہو جاتا ہے، اب تو یہاں باقاعدہ اسمبلیاں خریدی گئی ہیں، اب یہاں کون سیاست کر سکتا ہے جہاں صرف پیسہ ہی ایمان بن جائے اور پیسہ ہی سیاست ہو ، عوامی رائے اور نظریات کی اہمیت ہی نہ ہو،ان کا کہنا تھا کہ اب عوامی اسمبلیوں کی اہمیت ہوگی کہ آپ کے پاس اسٹریٹ پاور کیا ہے، ملک کا سیاسی عدم استحکام معیشت پر اثر انداز ہو رہا ہے، اگر ریاست ہی غیر مستحکم ہوجائے تو بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہوتے ہیں، بنگلہ دیش میں 20 دن کے اندر ہی کایا پلٹ گئی کیونکہ وہاں مینڈیٹ ایک ہوا کا غبارہ تھا، ہم بنگلہ دیش جیسے حالات کی جانب نہیں جانا چاہتے۔
مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ اگر ہمیں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دے دی جائے تو ہمیں اپنی شکست پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ہمیں پورے ملک کی انتخابی نتائج پر اعتراض ہے صرف پنجاب بلوچستان نہیں بلکہ سندھ اور خیبرپختونخوا پر بھی ہے، ہمیں اس حکومت سے مذاکرات سے کوئی انکار نہیں لیکن ان کے پاس اختیار نہیں ہے۔