پاکستانی بیلسٹک میزائل امریکا کیلئے بھی خطرے کا باعث ہیں، جان فائنر

یہ میزائل جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس کیے جا سکتے ہیں، امریکی نائب مشیربرائے قومی سلامتی

Dec 20, 2024 | 09:29:AM

(ویب ڈیسک)امریکی نائب مشیربرائے قومی سلامتی جان فائنر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے میزائل سے امریکا بھی محفوظ نہیں ہے۔

جان فائنر نے کہا کہ پاکستان طویل فاصلے کے بیلسٹک میزائل بنا رہا ہے جو جنوبی ایشیا کے علاوہ امریکا تک اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ بیلسٹک میزائل جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس کیے جا سکتے ہیں۔

غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی نائب قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ اسلام آباد کے  طرزعمل نے طویل فاصلے تک اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائل پروگرام کے مقاصد کے بارے میں شکوک وشبہات کو جنم دیا ہے،صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام امریکا کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

یاد رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے گزشتہ روز پاکستان کے 4 اداروں پر بیلسٹک میزائل کی تیاریوں میں معاونت پر پابندی کا اعلان کیا تھا،امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستانی اداروں پر پابندی کے حوالے سے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ امریکا جوہری ہتھیاروں اور اس سے وابستہ تمام سرگرمیوں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھے گا۔

غیرملکی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کا یہ فیصلہ پاکستان کی جانب سے میزائل پروگرام کو وسعت دینے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پٖڑھیں:ایک سال میں28ہزار پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں،رپورٹ سامنےآگئی

دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکی پابندیوں پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے غیر منصفانہ قرار دیا، ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس اور دیگر 3 اداروں پر امریکی پابندیاں متعصبانہ ہیں،پاکستان کی سٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا تحفظ کرنا ہے،پابندیوں کی تازہ ترین قسط امن اورسلامتی کے مقصد سے انحراف کرتی ہے، جس کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے،اس طرح کی پالیسیاں ہمارے خطے اور اس سے باہر کے اسٹریٹجک استحکام کے لیے خطرناک مضمرات رکھتی ہیں،یہ سٹریٹجک پروگرام ایک مقدس امانت ہے جسے 240 ملین لوگوں نے اس کی قیادت پر عطا کیا ہے اور اس مقدس اعتماد پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا،ہمیں نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے،ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

مزیدخبریں