کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
تحریر: غلام حسن فرید
Stay tuned with 24 News HD Android App
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا، غالب نے یہ مصرع کن حالات میں کہا ہوگا یہ بات تو مبالغہ آمیز ہی سہی مگر حالاتِ حاضرہ کو نظر میں رکھیں تو یہ بات عیاں ہے کہ دوست اور دشمن میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ معاشی استحصال اور خانہ جنگی نے پوری دنیا کے انسانوں خصوصاً پاکستان کے باشندوں کو اپنے جال میں یوں جکڑا ہے کہ جیسے بنور میں تنکا۔
ستم ظریفی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنی اولاد کو بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ چوراہوں پر حق مانگنے والوں کی بھرمار تھی مگر آج لوگ انہی چوراہوں اور گلیوں میں اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت پوری کرنے کے درپے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ جان کے لالے پڑے ہیں تو بے جا نہیں۔ آج معاشی خانہ جنگی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور آنے والے وقتوں میں خدشہ ہے کہ یہ معاشی خانہ جنگی اس قدر گراوٹ کا شکار نہ ہو جائے کہ گھر کا سربراہ خود کو بیچنے پر مجبور ہو جائے۔ مگر ہمیں کیا، ہمارے گھر میں تو دانے ہیں اور جن کے گھر میں دانے موجود ہوں ان کے کملے بھی سیانے ہوتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں اور اشرافیا اس بات سے بے نیاز ہیں کہ غریب کس چکی میں پس رہا ہے اور کن حالات میں جی رہا ہے۔ ہمارے آقا خوش رہیں ہمیں اس سے مطلب ہے کہ ہمارا دھندا چلتا رہے۔ بادی النظر میں ہمارے ملک میں تو لوٹ کھسوٹ اور بربریت کا بازار گرم ہے۔ کہیں شنید ہے کہ ڈالر کے اتار چڑھاؤ میں استقلال نہیں تو اشیائے خوردونوش خصوصاً وہ بنیادی اشیا جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے کو بھی جیسے پر لگ گئے ہیں۔ غریب کو زندہ نہ رہنے دو کی پالیسی ہمارے ملک میں رائج ہے۔
ارے یہ میں نے کیا سنا ؟ پٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی چلو کوئی بات نہیں۔ ہمیں پٹرول سے کیا مطلب ؟ ہمیں تو دو وقت کی روٹی سے کام ہے مل جائے تو جئیے جائیں مگر اب تو حال یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی کےلیے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو جا لگیں ہیں۔ جیسے تیسے بھی زندہ رہنے کے لیے اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بندوبست تو کر ہی لیں مگر اب اسے پکانے کا مسئلہ بھی تو درپیش ہے کہ گیس کی لوڈشڈنگ سے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ سلنڈر والی مصنوعی گیس کا بحران بھی ہمارے ملک میں عام سی بات ہے۔ اس کی قیمتیں بھی مصنوعی بڑھا دی جاتی ہیں تو کیا نئی بات ہے؟ بجلی کے نرخ بڑھا دیں جی بڑھا دئیے، کرایوں میں اضافہ کر دیں، جی کر دیا، سبسڈی ختم کر دیں، جی کر دی، ٹیکسوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیں جی کر دیا، کوئی اور امر ہمارے لائق ہے تو حکم جاری فرمائیں۔
ہم عوام تو چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والے ہیں اور ان پاٹوں کو نام نہاد اور کرایے کا وہ آقا چلا رہے ہیں جنہیں ہم پر رحم نہیں آتا اور اس سے بڑھ کر چکی کے متوالوں کو بھی۔ فراق کو رکھ پوری نے ستر کی دہائی میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ دنیا اب کوئی پلٹا لینے ہی والی ہے شاید، تو لو جی پلٹا ہم نے بھی لے لیا ہے وہ یہ کہ جو مر گئے وہ عدم کو سہار گئے وہ کبھی اس جہاں میں واپس آنے کے نہیں ایسے ہی پنجاب آرٹس کونسل کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچنے والوں اور اپنی بیگمات کے زیور بیچ کر اپنا خون دینے والوں کو بھی پلٹا دیا جائے۔ ثقافت ہمارے تہذیبی و علاقائی اقدار سے عبارت ہے جس میں ہمارے علاقائی تہوار، بزرگوں کے عرس، میلے ٹھیلے، لوک رقص، بولیاں، تھیٹر اور اس جیسی کئی گلکاریاں مل کر ایک حسین گلدستہ بناتی ہیں۔ وہاں اس گلدستے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے فنکاروں کی ضرورت مسلم ہے اس مقصد کے لیے پنجاب آرٹس کونسل اپنے فرائض سے غافل نہیں۔
ثقافت کی آبیاری اور صدیوں سے ہماری راویات کا امانت دار یہ ایسا ادارہ ہے جو سن پچھتر سے پاکستان بھر میں اور خصوصاً پنجاب میں گنگا جمنی اور ہڑپائی تہذیبوں کا پالن ہار ہے۔ اس کی بنیادوں میں پنجاب آرٹس کونسل کے ٹروپے کی جانفشانی اور ہنر شامل ہے۔ ماضی کے اس عظیم ٹروپے میں چند ایک بزرگ ہستاں آج بھی اس حالت میں زندہ ہیں کہ ان کی کمر جھک گئی ہے، بیماریوں نے انہیں آن گھیرا ہے اور اپنی سانسیں پوری کرنے کے لیے حاکموں سے اپنی خدمات کا صلہ مانگ رہی ہیں۔ صلہ کیا مانگیں ؟ انعام و اکرام سے کیا مطلب ہم تو ایسے جیسے اپنی جوانی کی اُترن بھیک میں مانگ رہے ہیں۔ ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ پچاس سال سے زیادہ ثقافت کے اس ادارے میں خدمات انجام دینے کے بعد بھی ایسی معقول اجرت کہ جس میں گزارہ کرنا آج کے دور میں شیر کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے مترادف ہے، اس پر بھی منت سماجت ایسی کہ جیسے افسران کے لیے بالائے جان ہونے کا خدشہ ہو۔
جن لوگوں نے اپنی جوانی کی بہاریں اس کی تعمیر میں صرف کیں اور جن کا نام سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے، انہیں اس قدر کسمپرسی کی حالت میں دیکھ کر دل خوں کے آنسو روتا ہے۔ حالت یہاں تک کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایسے اساتذہ جو اپنے اپنے ہنر اور فن میں یکتائے زمانہ کا درجہ رکھتے ہیں اور رکھتے تھے یوں ہی خاک کی نظر ہوتے جا رہے ہیں۔ مالی معاونت تو درکنار ان کے کفن دفن کے لیے بھی کوئی مناسب اقدامات کا منصوبہ نہیں۔ ساری زندگیاں ایک ادارے اور ایک ہی چھت تلے گزارنے کے بعد بھی آخر محرومی ہی ان کا مقدر کیوں ؟
خدارا ثقافت کے اس ادارے اور اس کے ٹروپے کی عظیم قربانیوں کو یوں ہی زمیں بوس نہ ہونے دیں۔ معاشی خانہ جنگی کے اس دھانے پر اور مصیبت کی اس گھڑی میں پنجاب آرٹس کونسل کے ٹروپے کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں عزت کا وہ مقام دیں جس کے یہ حق دار ہیں۔
(نوٹ: تحریر پنجاب کلچرل ٹروپے کے معروف وائلنسٹ واجد علی، گلوکار محمد صدیق اور سارنگی نواز فقیر حسین کے کسمپرسی میں دنیا سے رخصت ہونے پر حکومتی بے حسی پر لکھی گئی)