ذوالفقار علی بھٹو کیس:میں مارشل لاء سے بہت ڈسٹرب ہوں، چیف جسٹس

یہ مقدمہ افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کیلئے ایک موقع نہیں؟ ، کیا یہ موقع نہیں دونوں ادارے خود پر لگے الزامات سے دامن چھڑائیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

Feb 20, 2024 | 16:18:PM

(24 نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ  اگر ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیصلہ متفقہ ہوتا تو جج کے بیان سے فرق نہ پڑتا، اس کیس میں ایک جج کی رائے سے بھی فیصلے پر پریکٹیکل اثرات پڑتے ہیں۔یہ مقدمہ افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کیلئے ایک موقع نہیں؟ ، کیا یہ موقع نہیں دونوں ادارے خود پر لگے الزامات سے دامن چھڑائیں۔میں مارشل لاء سے بہت ڈسٹرب ہوں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 9 رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت کی جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ، رضا ربانی، فیصل کریم کنڈی، شیری رحمٰن، سرفراز بگٹی ، ندیم افضل چن اور فاروق ایچ نائیک بھی سپریم کورٹ پہنچے۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے جس پر انہوں نے بتایا کہ عدالتی معاون خالد جاوید خان بیمار ہیں آئندہ سماعت پر آئیں گے۔سابق جج اسد اللہ چمکنی بھی عدالتی معاون کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فوجداری قانون کے ماہر ہیں آپ کو دوسرے مرحلے میں سنیں گے۔

عدالتی معاون صلاح الدین کے ساتھ چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ صلاح الدین صاحب اگر آپ ناراض نہ ہوں تو مخدوم صاحب سینیئر ہیں پہلے انہیں سن لیں۔مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تعصب کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے جو معاملہ ہے وہ تعصب کا ہے یا سابق جج کے اعتراف کا؟، مخدوم علی خان نے کہا کہ جج کےانٹرویو کا ایک حصہ تعصب کے اعتراف کا ہے جکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ تعصب کا اعتراف کہلائے گا یا غلط کاری کا اعتراف؟، مخدوم علی خان نے کہا کہ انٹرویو میں دباؤ کی بات کی گئی ہے کہ دباؤ تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دباؤ ہوگا تو یا میں دباؤ نہیں لوں گا یا بینچ سے الگ ہو جاؤں گا۔

مجھے بیوی کا دباؤ تھا یہ آرڈر دو ورنہ کوئی اور جگہ دیکھ لو تو یہ کس کیٹیگری میں آئے گا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کل کوئی جج کہے مجھے بیوی کا دباؤ تھا یہ آرڈر دو ورنہ کوئی اور جگہ دیکھ لو تو یہ کس کیٹیگری میں آئے گا؟ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، دو مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں، اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیصلہ متفقہ ہوتا تو جج کے بیان سے فرق نہ پڑتا، اس کیس میں ایک جج کی رائے سے بھی فیصلے پر پریکٹیکل اثرات پڑتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم اس معاملے میں "ایلیفینٹ ان روم، مارشل لا" کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟  آئین روندنے والے کا اس معاملے میں مفاد موجود تھا،  مارشل لا کے ماتحت قائم عدالت کو عمومی عدالت کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت پی سی او کے تحت حلف لیا گیا تھا؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی مائی لارڈ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئینی پہلو پر آپ سے زیادہ سننا چاہتے ہیں جبکہ جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں اختلاف کرنے والوں کو بعد میں ملک نہیں چھوڑنا پڑا؟، جسٹس صفدر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑا، پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کرنے والوں کا کوئی انٹرویو یا کتاب ہے؟۔

ضرورپڑھیں:عوام کا پیغام ہے آپس میں بیٹھ کر فیصلہ سازی کریں، بلاول بھٹو

مخدوم علی خان نے بتایا کہ جسٹس دراب پٹیل کا ایک انٹرویو پی ٹی وی میں موجود ہے،  وہ انٹرویو یوٹیوب پر نہیں ہے مگر پی ٹی وی کے پاس ہے، مخدوم علی خان کی جانب سے سہیل وڑائچ کی کتاب کا حوالہ بھی دیا گیا اور کہا کہ اس کتاب میں مختلف ججز کے انٹرویوز اکٹھے کیے گئے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے جسٹس مشتاق اور بھٹو کے اختلافات پر بات کی، نسیم حسن شاہ نے کہا مشتاق صاحب 8 سینئر ججز کو نظر انداز کر کے جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس بنانے پر بھٹو سے ناخوش تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو وہ دوسرے ججوں کی بات کر رہے ہیں، کچھ ایسا بتائیں جس میں انہوں نے اپنی بات کی ہو۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ افتخار احمد کے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کیا کہا؟ ، انٹرویو میں کس جگہ کہا کہ مجھ پر فیصلے کیلئے دباؤ تھا؟۔

مخدوم علی خان نے بتایا کہ وہ اس کیس کیلئے مخصوص نہیں ایک مجموعی تناظر میں تھا، نسیم حسن شاہ نے کہا مشتاق صاحب کو اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیئے تھا، نسیم حسن شاہ نے کہا شک کا فائدہ مل سکتا تھا مگر کچھ ہماری کمزوری تھی کچھ یحییٰ بختیار نے ہمیں ناراض کر دیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وکیل پر کیسے مدعا ڈالا جا سکتا ہے؟، ناراض کر دیا تھا تو کیس سننا چھوڑ دیتے یا انصاف کرتے، ناراض ہم بھی کئی بار ہو جاتے ہیں مگر یہ تو نہیں کہ فیصلہ الٹ دیں، وکیل کے کنڈکٹ کی سزا مؤکل کو نہیں ملنی چاہیئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ واحد کیس ہے جس میں ہائی کورٹ نے براہ راست قتل کیس سنا؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ رپورٹ ہوئے مقدمات میں ایسا کوئی اور کیس نہیں، ویسے شاید ہو، دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا تھا ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دراب پٹیل بدقسمتی سے متفقہ طور پر نظرثانی خارج کرنے والے بینچ کا حصہ تھے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کیا صرف اپنی بات کر رہے تھے کہ وہ وکیل سے ناراض ہو گئے تھے یا بینچ کی؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ بظاہر اپنی بات کر رہے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک جج ریٹائر ہو کر سیاست میں جانا چاہے تو بھی ایسے بیانات دے سکتا ہے،  کسی نے ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کہا اس پر دیکھنے لگے تو سب فیصلے اڑنے لگیں گے، کچھ اور بنیاد بھی بتائیں آپ مارشل لا کی زیادہ بات نہیں کر رہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی اور ایسا کیس نہیں جس میں جج نے بعد میں ایسی بات کی ہو، یہاں بات صرف اس تاثر کی نہیں جو اس عدالت کے بینچ کا ہے، بات عوامی سطح پر موجود اس تاثر کی ہے جو اس کیس سے متعلق موجود ہے،  دہائیوں بعد 2023 میں بھی وزیراعظم نے اسمبلی میں اس کیس پر بات کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں مارشل لاء سے بہت ڈسٹرب ہوں، ہم اس کو روکیں تو ساری چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں، مارشل لا میں تو ججوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں کہا کہ ذوالفقار بھٹو کے وکیل نے سزا کم کرنے پر دلائل نہیں دیئے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی جج کرمنل کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر وکیل کی ملامت کر سکتا ہے؟ ، بھٹو کے وکیل سزا معطلی کے بجائے سزا میں کمی کی استدعا کیوں کرتے؟ جبکہ جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں سزا کم کرنے کی استدعا تھی؟۔

کیا سزائے موت چار تین کے تناسب سے دی جا سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپیل میں سزا کم کرنے کی استدعا نہ بھی ہو تو جج کو انصاف کی فراہمی کو دیکھنا ہوتا ہے، کیا یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا کیس تھا جس میں ٹرائل ہائیکورٹ نے کیا اور ایک اپیل کا حق چھینا؟ کیا سزائے موت چار تین کے تناسب سے دی جا سکتی ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کیس کے حقائق کو دیکھنا چاہیئے، آپ عدالتی نظائر ہی بتا دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ مقدمہ افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کیلئے ایک موقع نہیں؟، کیا یہ موقع نہیں دونوں ادارے خود پر لگے الزامات سے دامن چھڑائیں، مارشل لا آرمی بطور ادارہ نہیں لگاتی کچھ لوگوں کا انفرادی فعل ہوتا ہے، کبھی نہ کبھی تو نئی شروعات ہونی ہے تو کیا یہ موقع نہیں؟ غلط کاموں کا مدعا انہی انفرادی شخصیات پر ڈال کر اداروں کا ان سے لاتعلق ہونے کا موقع نہیں؟ ، کیا ایسا کرنا قوم کے زخم نہیں بھرے گا؟، ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور تاریخ اچھی نہیں ہے۔

مزیدخبریں