تعلیمی ادارے ’نشئیوں ‘کے اڈے بن گئے،منشیات کے استعمال میں حیرت انگیز اضافہ
رپورٹ : وسیم شہزاد (ملتان) | منشیات کے باعث ملتان شہر میں گداگری گزشتہ ایک سال میں 20 فیصد بڑھ گئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
میری حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ ماں ، بہنیں بے بس ہو کر رونا شروع کردیتی ہیں ، والدہ کبھی میرے ماتھے کو چومتی ہے کبھی دباتی ہے تو کبھی آسمان کو دیکھ کر میری صحت یابی کی دعائیں کرتی ہے ، یہی حال بہنوں کا ہے ، کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کے بس اب موت ہے کیونکہ میری ذات میرے اپنے اختیار سے باہر ہو جاتی ہے ۔
ایسا کہنا ہے ملتان میں چونگی نمبر9 کے قریب واقع ماما بھا نجا ٹی سٹال پر بھیک مانگتے 28 سالہ مبشر کا، مبشر دو سال قبل بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں بی ایس اکنامکس کے سابق طالب علم رہے ہیں ، مگر منشیات drugs کے بے دریغ استعمال نے انکی زندگی کو اس حد تک تباہ کر دیا ہے کے والد کی وفات کے بعد گھر کا اکلوتا سپوت اپنی بہنوں اور ماں کو پالنے کے بجائے خود ان پر بوجھ بن چکا ہے ، مبشر کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا مگر یونیورسٹی میں سگریٹ سے چرس /گردا اور افیون سے بڑھتا ہوا سفر کب آئس تک پہنچا پتا ہی نہ چلا ۔ والد کی وفات کا غم بھلانے کے لیے آئس نے کلیدی کردار ادا تو کیا مگر والد کی وفات کے بعد تمام پونجی بھی اسکی نظر ہو گئی ، گھر کا اکلوتا بیٹا ہونے پرماں نے موجود جمع پونجی میرے ہاتھ میں تھمانا شروع کر دی تھی کہ شاید مجھے عقل آ جائے کیونکہ میں ہی اپنی ماں کا آخری سہارا ہوں ،۔
آخر والدہ جانتے بوجھتے بیٹے کو نشے کے لیے پیسے کیوں دیتی ہے ؟
مبشر کی والدہ سے پوچھے گئے سوال پر اسکا آبدیدہ ہوتے ہوئے کہنا تھا کہ اسکا بیٹا نشہ کا اس حد تک شکار ہو چکا ہے کہ اگر اس کو نشہ نہ دیا جائے تو اسکی حالت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے اور مجھ سمیت اسکی بہنیں بے بس ہو جاتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس گھر میں یہی واحد مرد ہے جسے وہ کسی صورت بھی کھونا نہیں چاہتی ، مبشر کی والدہ کہتی ہیں کہ اس نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تک گھروں میں ملازمت کر کے اپنے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھا مگر اب وہ بڑھاپے کو پہنچ چکی ہے ، کوئی کام کاج نہیں کر سکتی ، مبشر کی 2 بہنیں ہیں جو سنٹرل جیل کے پاس بسکٹ بنانے کی فیکٹری میں کام کرتی ہیں ۔ جنکی اجرت ہی گھر کا چولہا جلانے کا باعث بن رہی ہے ۔
کیا تم اس زندگی سے مطمئن ہو ؟
مبشر سے پو چھے گئے اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں وہ نشے کو چھوڑنا چاہتا ہے مگر وہ اس کا اس حد تک شکار ہو چکا ہے کہ چاہ کر بھی چھوڑ نہیں پا رہا ، وہ کہتا ہے کہ اب والدہ اور بہنوں کی جانب سے پیسوں کے معاملے پر اس پر گھیرا تنگ ہو چکا ہے ، یہی وجہ ہے کہ میں رات گئے گھر سے باہر نکل کر شاہراؤں پر بھیک مانگتا ہوں ، جس سے حاصل ہونے والی رقم سے صرف اپنا نشہ پورا کرتا ہوں۔صرف مبشر ہی نہیں بلکہ شہر ملتان کے عید گاہ چوگ ، دولت گیٹ ، گھنٹہ گھر ، چوک کمہارانولہ ، 9 نمبر چونگی ، کچہری اور صدر بازار سمیت متعدد علاقوں میں بیشتر ایسی داستانیں ہیں جو نشے کے باعث جہاں گداگری کے بڑھنے کا سبب ہیں وہی قمیتی جوانیوں کا ضیاع بھی ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں :یوٹیوب پر باپ بیٹے کی دھوم
منشیات فروش نیٹ ورکس کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ ملتان کی جن جگہوں پر منشیات کا سر عام استعمال کیا جاتا ہے انہی جگہ پر منشیات فروشوں کے نیٹ ورک زیادہ فعال ہیں ، انہوں نے مبینہ طور پر الزام عائد کیا کہ اس تمام تر عمل میں مقامی پولیس بھی شامل ہے اور پولیس ہی ان منشیآت فروشوں کی پشت پناہی کر رہی ہے ، ملتان کے عید گاہ چوگ ، دولت گیٹ ، گھنٹہ گھر ، چوک کمہارانولہ ، 9 نمبر چونگی ، کچہری اور صدر بازار سمیت متعدد علاقوں میں بیشتر جگہوں پر منشیات فروشون نے ڈیرے جما رکھے ہیں اور یے تمام دھندا پولیس کی پشت پناہی میں چل رہا ہے ، اور رہی سہی کسر با اثر لوگوں کی پشت پناہی بھی شامل ہے ۔
دنیا اور منشیات
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم سماجی ایکٹوسٹ بینش نظیر کہتی ہیں ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2021ء کے مطابق دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً27کروڑ 50لاکھ ہے جب کہ 3کروڑ60لاکھ سے زائد افراد منشیات کے استعمال کے عوارض کا شکار ہوئے۔
دنیا بھر میں ہیروئن ، کوکین، چرس، بھنگ، آئس، کرسٹل میتھ اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال سے سالانہ کئی لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 2010ء سے2012ء کے درمیان منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 25فیصد اضافہ ہوا، جہاں عالمی آبادی میں اضافہ ہو رہ اہے وہی دنیا میں منشیات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے ، صرف آبادیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر، موجودہ تخمینوں کے مطابق 2030ء تک عالمی سطح پر منشیات کا استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 11فیصد اضافے کا خدشہ ہے ،وہ کہتی ہیں عالمی اندازوں کے مطابق، 15سے 64سال کی عمر کی تقریباً 5.5فیصد آبادی نے 2020ء میں کم از کم ایک بار منشیات کا استعمال کیا جبکہ 3کروڑ 63 لاکھ افراد یا منشیات استعمال کرنے والے افراد کی کُل تعداد کا 13فیصد، منشیات کے استعمال کی خرابی کا شکارہے۔سماجی ایکتوسٹ بنش نظیر کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر1کروڑ10لاکھ سے زائد لوگ انجیکشن کے ذریعے منشیات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے نصف ہیپاٹائٹس سی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیی ۔وہ کہتی ہیں عالمی مارکیٹ میں غیر قانونی منشیات کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترسیل، اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والے زمینی اور آبی راستوں کی تعداد میں اضافہ، منشیات کی اسمگلنگ کے لیے نجی طیاروں کا زیادہ استعمال اور ترسیل کے لیے کانٹیکٹ لیس طریقوں کے ذریعے لوگوں تک منشیات پہنچائی جا رہی جو کہ روکنا بہت ضروری ہے۔
ملتان اور منشیات
انچارج نجات سنٹر ڈاکٹر ماریہ بلوچ کہتی ہیں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70لاکھ سے زائد افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ جبکہ ملتان میں ایک اندازے کے مطابق 40 فیصد مرد اور 20 فیصد خواتین منشیات کا استعمال کرتی ہیں ، جن کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ ہے ، اگر اسمیں سگریٹ نوشی کا شکار افراد کو بھی شامل کیا جائے تو یے تعداد 3 گنا تک بڑھ جاتی ہے ، وہ کہتی ہیں شہر ملتان میں کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، جن میں ہیروئن، کوکین اور آئس کا نشہ قابل ذکر ہیں۔ دیہات کے مقابلے میں شہری آبادی میں منشیات کے استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ ہر سال لاکھوں روپے مالیت کی منشیات استعمال کی جاتی ہیں۔ منشیات استعمال کرنے والے افراد ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
حتیٰ کہ اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم(جن کی عمریں 13سے 25سال کے درمیان ہیں )بھی منشیات کی لعنت کا شکار ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران نوجوان آئس جیسے خطرناک اور جان لیوانشے میں زیادہ مبتلا نظر آئے ہیں۔ آئس یا کرسٹل نامی یہ نشہ میتھ ایمفٹامین کیمیکل سے بنایا جاتا ہے۔ نشے کے عادی افراد آئس کو انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ اس حوالے سے نوجوانوں میں بڑھتی بے چینی اور ڈپریشن کی وجوہات جاننے کے ساتھ ان کا سدباب بھی ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں ایسے لوگوں کو صحت مند سرگرمیوں سے متعلق ترغیب دے کر اس لت میں مبتلا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سےسیاسی و مذہبی جماعتوں، سماجی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور والدین کے ساتھ ساتھ میڈیا، ڈاکٹرز اور میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے ۔
پروفیسر ضیاء المصطفٰے کہتے ہیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد صرف منشیات کے استعمال کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ موجودہ تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں بلکہ وہاں اس کا رجحان مزید بڑھ رہا ہے، وہ کہتے ہیں ہمیں کالجز اور یونیورسٹیز میں سگریٹ نوشی اور منشیات کے استعمال کے حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانی ہو گی ۔
ضرور پڑھیں : پاکستان کمسن دلہنوں والا چھٹا بڑا ملک ،حقائق کیا ہیں؟ تہلکہ خیز انکشافات
انسپکٹر اینی نارکوٹکس فورس میڈم نادیہ کہتی ہیں منشیات کے استعمال کے مضراثرات کے حوالے سے اینٹی نارکوٹکس فورس عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر کوششیں کر رہاہے ، سکولوں کالجز اور یونیورسٹیز میں جا کر سیمینار کا انعقاد کرایا جا رہا ہے ، تاکہ نئی نسل کو منشیات کے مضر اثرات بارے آگاہی حاصل ہو سکے ۔وہ کہتی ہیں منشیات کے سد باب کے حوالے سے اے این ایف کی کارکردگی متاثر کن ہے کہ کیونکہ پاکستان کو 2001 ء سے ’’پوست سے پاک ملک‘‘ کا درجہ حاصل ہے، اے این ایف، دیگر شراکتی اداروں کے تعاون، دستیاب وسائل، پیشہ ورانہ مہارت اور مربوط حکمت عملی کے ذریعے منشیات کی لعنت سے نمٹنے کیلئے سخت اقدامات کر رہا ہے۔ حالیہ ناگ شاہ روڈ ملتان میں کی گئی کاروائی کے مطابق 80 کلو چرس اینٹی نارکوٹکس فورس نے پکڑی ہے ، جو اییٹں نارکوٹکس کی بڑی کاروائیوں میں شمار ہے ،
انچارج ڈرگ رہیبلی ٹینشن سنٹر میثم صدیقی کے مطابق ڈڑگ رہیبلی ٹیشن سنٹر اس طرح کی بری لت کا شکار لوگوں کی صورتحال پر کام کر رہا ہے ، جنکا باقاعدہ ٹیسٹ کرنے کے بعد ان لوگوں کو 3 ماہ کے لیے ریہیبلیٹیٹ کیا جاتا ہے ، جن میں 15 دن ان کو کم ڈوز والی دوائیں دی جاتی ہیں وہ کہتے ہیں ،منشیات کے عادی افراد کے لیے اسے ترک کرنا انتہائی مشکل اور تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ 10سے 15روز ڈی ٹاکسی فکیشن کے لیے ہوتے ہیں، تاہم نشے کی اقسام کے لحاظ سے یہ عرصہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس عرصہ میں کچھ لوگوں کے لیے تکلیف کو برداشت کرنا کافی مشکل ہوتا ہے، اس لیے ان کے دماغ میں خودکشی کے خیالات بھی آتے ہیں۔
میثم صدیقی کا کہنا ہے کہ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد علاج کیا جاتا ہے، جس میں متاثرہ شخص کا نفسیاتی مشاہدہ اور معاونت کی جاتی ہے۔ ایسے افراد کو سوچ سمجھ کر زندگی گزارنی پڑتی ہے، وہ عموماً بہت غصے میں رہتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذہن میں بٹھا لیتے ہیں پھر انہی باتوں کو بہانہ بنا کر ایک بار پھر نشے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں انکا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف کاموں کا حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ انکا دھیان بٹتا رہے ، میثم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ عمل سست ضرور ہے مگر اسکا رزلٹ دیرپا ہے تقریبا 50 فیصد کے قریب لوگ اس عمل سے صحت یاب ہو جاتے ہیں اور ڈرگ ری ہیبلیٹیشن سنٹر ان لوگوں کو نارمل انسان بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیکل سٹورز پر سختی سے اس بات پر عمل کروایا جائے کہ یہ نشہ آور ادویات ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر عوام الناس تک نہ پہنچیں۔
انسپکٹر محمد اسد کے مطابق منشیات کی روک تھام کے لیے محکمہ پولیس اپنا کردارا ادا تو کر رہی ہے مگر وہ مانتے ہیں کہ معاشرہ ابھی بھی اس ناسور کا شکار ہے چونکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں گلیوں اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں گزشتہ 1 سال کے دوران شہر ملتان میں 143 کے قریب منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کی گئی جس میں 100 کے قریب منشیات فروشوں کو سزائیں اور جرمانے کیے گئے ، مگر پھر بھی یہ ناسور دم نہیں توڑ رہا ، وہ کہتے ہیں منشیات میں اضافہ صرف وطن عزیز کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اقوام عالم بھی اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ منشیات کا استعمال ایک عالمی مسئلہ ہے جس کیلئے تمام ممالک اور بین الاقوامی اداروں کو اسکے انسدادکیلئے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔تاکہ معاشرے میں نواجوان نسل پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی گداگری کو بھی کنٹرول کیا جا سکے ۔