خواجہ سرا میڈم گوشی کا تعلق فیصل آباد سے ہے‘جن کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہوچکی ہے مگر اب بھی ان کے پاس روز گار نہیں ہے‘ میڈم گوشی کا کہنا ہے کہ شادی بیاہ ‘ سالگرہ یا خوشی کے دیگر مواقع ہی ان لئے روزگار کا واحد ذریعہ ہیں کیونکہ یہاں ناچ گانا کرکے وہ اتنا کمالیتی ہیں کہ گھر کی دال روٹی چل جاتی ہے مگر جب سے ہوٹلوں‘ مارکیز اور میرج ہالز میں شادیوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ان کے لئے روزگار کا یہ واحد ذریعہ بھی ختم ہوچکا ہے کیونکہ یہاں خواجہ سراؤں کو داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا ہے‘ خواجہ سراؤں سمیت معاشرے کے ہر شہری کے لئے باعزت روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے‘ریاست یہ ذمہ داری تب ہی پوری کر سکتی ہے جب اس کے پاس افراد کی تعداد کے حوالے سے درست اعداد وشمار موجود ہوں‘ بد قسمتی سے پاکستان میں خواجہ سراؤ ں کی تعداد‘ تعلیمی قابلیت اور اہلیت جاننے کے لئے نہ ہی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے او ر نہ ہی ابھی تک کوئی سرکاری سطح پر کوئی ایسا میکنزم وضح کیا جا سکا ہے جس سے خواجہ سراؤں کے حوالے سے معلومات اکھٹی کی جا سکتی ہیں۔
خواجہ سراؤں کی تعداد کے حوالے سرکاری محکموں کے اعداد و شمار میں فرق
ادارہ شماریات سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر میں خواجہ سراؤ ں کی کل تعداد 12ہزار 4سو 35ہے جن میں شہری علاقوں میں رہنے والے خواجہ سراؤں کی تعداد5ہزار 6سو 11جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے خواجہ سراؤ ں کی تعداد 6ہزا ر8سو18ہے خواجہ سراؤں کی تعداد کے حوالے سے اگر کسی ایک شہر یا ضلع کے سرکاری محکموں کے اعداد وشمار کا جائزہ لے لیا جائے تو واضح فرق سامنے آجاتاہے‘ ادارہ شماریات کے ہی مطابق ضلع فیصل آباد میں خواجہ سراؤں کی کل تعدا د 828ہے ان میں سے 367خواجہ سرا دیہات میں رہتے ہیں جبکہ 461خواجہ سرا شہری علاقوں میں رہتے ہیں‘ نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی کے مطابق یکم جنوری 2022سے 30نومبر 2022تک 3ہزار کے لگ بھگ خواجہ سراؤں نے شناختی کارڈ کے حصول کے لئے نادرا سے رجوع کیا تھا تاہم کوائف مکمل نہ ہونے‘ عدم تصدیق اور دیگر مسائل کی بنا پران میں سے بیشتر خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈز جاری نہیں کئے جا سکے۔ اس ضمن میں سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ سے جب خواجہ سراؤں کی تعداد جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو سوشل ویلفیئر آفیسر طاہر چودھری نے بتایا کہ سوشل ویلفیئر کے پاس خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے تاہم شناختی کارڈ بنوانے کے لئے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کوائف کی تصدیق کی جا تی ہے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تاحال 60خواجہ سراؤں کی شناختی کارڈز بنوانے کی تصدیق کی گئی ہے
خواجہ سراؤں کی تعداد کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیموں کا موقف
خواجہ سراؤں کی تعداد کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیموں اور حکومتی اداروں کے اعداد وشمار میں خاصاتضاد ہے‘ شی میل رائٹس ایسوسی ایشن کی آرگنائزر علینہ جان کا کہنا ہے کہ ہر بڑے شہر میں دو سے تین ہزار خواجہ سرا موجود ہیں ان میں سے کچھ نے تو اپنی شناخت چھپا رکھی ہے جبکہ باقیوں کی رجسٹریشن ہی نہیں کی گئی‘ خواجہ سرا مبین احمد کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ فیصل آباد میں ساتھی فاؤنڈیشن میں بطور پراجیکٹ مینجر فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ اگر صرف فیصل آباد کی حد تک دیکھا جائے تو فیصل آباد میں خواجہ سراؤں کی تعداد اڑھائی ہزار سے زائد ہے‘ چونکہ ان کی رجسٹریشن کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہے اس لئے ان کے حوالے سے درست اعداد وشمار میسر نہیں ہے‘ خواجہ سرا شبو رانی کا کہنا ہے کہ وہ شناختی کارڈ بنوانے کے لئے جا تی ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کا شناختی کارڈ لے کر آؤ‘ہمیں تو ماں باپ بچپن میں ہی چھوڑ دیتے ہیں تو ہم ان کا شناختی کارڈ کیسے لا سکتے ہیں -
خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کے حوالے درپیش مشکلات
حکومتی سطح پر خواجہ سراؤں(transgender) کے حوالے سے درست اعداد شمار نہ ہونے کی بڑی وجہ خواجہ سراؤں کی سرکاری سطح پر رجسٹریشن نہ ہونا ہے‘ خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے تنظیم کئیر فاؤنڈیشن کے سربراہ عدنان یوسف کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف نادرا کے پا س ہے کیونکہ نادرا جن خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرتا ہے انہی کا ڈیٹا سرکاری محکموں کے پاس جاتا ہے‘ اگر حکومت خواجہ سراؤں کے حوالے سے درست اعداد و شمار اکھٹا کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ہر ضلع میں فوکل پرسنز مقرر کئے جائیں یا کسی محکمے کو خصوصی اختیارات تفویض کئے جائیں‘ہیومن ایکٹوسٹ نور العین کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ فیملی ٹری کا نہ ہونا ہے‘ جب کوئی خواجہ سرا نادرا دفتر میں شناختی کارڈ بنوانے کے لئے جاتا ہے تو اسے والدین کا شناختی کارڈ”ب“ فارم یا ایسے دوسرے کوائف لانے کے لئے کہا جاتاہے‘ ان شرائط میں نرمی کی جائے تو خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن میں اضافہ ہوسکتا ہے
خواجہ سراؤں کے لئے روز گار کے ذرائع میں کمی
خواجہ سرا مونا جی خواجہ سراؤں کے لئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) میں کام کرتی ہیں‘ مونا جی کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کے لئے روزگار کے مواقع میں روز بروز کمی ہورہی ہے‘ پہلے کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا تو تو خواجہ سرا اسے لوری دینے جاتے تھے‘ بچے کے والدین خوش ہو کر خواجہ سراؤں کوپیسے یا کچھ (کپڑوں کا جوڑا وغیرہ) تحفے کے طور پر دے دیتے تھے مگر اب تو والدین اپنے بچے کو خواجہ سراؤں سے ایسے چھپاتے ہیں جیسے خواجہ سرا کوئی اور مخلوق ہوں‘ کہا جاتا ہے کہ خواجہ سرا کو بچے کے ہاتھ میں نہ دیں گے تو وہ خواجہ سرا ؤں جیساہی ہو جائے گا‘ مونا جی کا کہنا ہے کہ چونکہ انہوں نے تعلیم حاصل کررکھی تھی اس وجہ سے ان اچھی جاب مل گئی ہے مگر جو خواجہ سرا تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ان کے لئے تو روزگا ر ہے ہی نہیں‘خواجہ سرا ثنا چودھری کا کہنا ہے کہ ان کا پیشہ ہی ناچ گانا ہے‘ اس کے علاوہ ان کو اورکوئی کام نہیں آتا مگر اب تو شادی بیاہ کے فنکشنز میں ان کو داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا‘ اس کی وجہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں‘ خواجہ سرا صنم کا کہنا ہے کہ روز گار نہ ہونے کے باعث جب وہ مانگنے کے لئے جاتے ہیں تو انہیں غیر اخلاقی کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے اور گھر کا چولہا جلانے کے لئے انہیں یہ سب کرنا پڑتا ہے
روزگار کی عدم دستیابی کے باعث خواجہ سرا غیر اخلاقی کاموں کی طرف راغب
سینئر پولیس آفیسر اویس خان کا کہنا ہے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران خواجہ سراؤں کے خلاف شکایات میں اضافہ ہوا ہے‘چوری چکاری کے علاوہ خواجہ سراؤں کے خلاف شدید نوعیت کے الزامات کے تحت درخواسیتں بھی پولیس کے پاس آرہی ہیں جن میں غیر اخلاقی حرکات جیسے الزامات بھی شامل ہیں یہ صورتحال تشویشناک ہے‘ خواجہ سراؤں کے مقدمات میں قانونی معاونت کرنے والے ایڈوکیٹ ریاض انجم کا کہنا ہے صرف لاہور میں خواجہ سراؤں کے خلاف روزانہ دس سے بارہ درخواستیں پولیس کے پاس آتی ہیں‘چونکہ خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈز نہیں ہوتے اس لئے پولیس ان کے خلاف مقدمات درج کرنے سے گریز کرتے ہیں اور بیشتر معاملات کا مقدمہ کے اندراج کے بغیر ہی تفضیہ کروا دیا جاتاہے‘ خواجہ سراؤں کی غیر اخلاقی حرکات کی وجہ سے لاہور کے کچھ علاقے (کینال روڈ‘ یونیورسٹی روڈ وغیرہ) اس قدر بدنام ہوچکے ہیں کہ رات کے وقت شہری فیملی کے ہمراہ ان علاقوں میں سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں‘ اسی روڈ پر واقع ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی پر کچھ عرصہ قبل خواجہ سراؤ ں نے پتھراؤ بھی کیا تھا جس کی وجہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکینوں کی جانب سے خواجہ سراؤں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کے بارے شکایت کرنا تھی۔
خواجہ سراؤ ں کی بہتری کے لئے اقدامات
خواجہ سراؤں کے لئے پہلا چرچ قائم کرنے والی پروفیسر غزالہ شفیق کا کہنا ہے کہ بیشتر خواجہ سرا وں کا تعلق اکثریتی فرقے سے ہی نہیں ہوتا یہ خواجہ سرا مذہبی اقلیتوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اس کی وجہ سے انہیں دوہرا عذاب جھیلنا پڑتا ہے‘ ایک تو خواجہ سرا ہوتے ہیں دوسرا مذہبی اقلیت سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہیں گھروں کام کاج کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ان معاملات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کراچی میں خواجہ سراؤں کے لئے الگ چرچ قائم کیا ہے جہاں پر ان کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ہنر مند بنانے کے لئے مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں حکومت کی بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئے جس سے خواجہ سرا ہنر مند بن سکیں اور انہیں اچھا روز گار میسر آسکے۔