(امانت گشکوری)بنچز کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے سے متعلق انتظامی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس جاری کر دیئے گئے،سپریم کورٹ نے 18 جولائی کو ہونے والے کمیٹی اجلاس کے منٹس جاری کر دیئے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین و قانون کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق 15 روز کے اندر نظرثانی مقرر کرنا لازم ہے۔
منٹس کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواست مقرر کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے مطابق نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں،دونوں ارکان کمیٹی نے کہا درخواست مقرر نہ کی جائے کیونکہ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہوا۔
منٹس کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی مقرر نہ کرنے کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے ہوا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظرثانی درخواستیں فوری مقرر کرنے کی تجویز دی،تین رکنی ججز کمیٹی میں سے دو ممبران نے نظرثانی کیس موسم گرما کی تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کی رائے دی،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا تعطیلات کے بعد نظرثانی کیس مقرر ہونا چاہئے۔
انتظامی کمی اجلاس میں کہا گیا کہ نظرثانی درخواستوں میں استدعا کی گئی کہ 15 روز میں مقرر نہ ہوئیں تو زائد المیعاد ہوجائیں گی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ججز کی عدم دستیابی اور تعطیلات کی وجہ سے فریقین کو انکے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا،آئینی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے موسم گرما کی تعطیلات منسوخ کی جاسکتی ہیں۔
جسٹس منیب اختر کی رائے دی کہ موسم گرما کی تعطیلات سپریم کورٹ رولز کے مطابق منسوخ نہیں ہوسکتیں،موسم گرما کی تعطیلات منسوخ کرنی ہیں تو فل کورٹ رولز میں تبدیلی کرے،دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ 13 ججز کی دستیابی اور تعطیلات کے بعد نظرثانی کیس سنا جائے گا۔
منٹس کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے الگ سے نوٹ بھی تحریر کیا ہے،18 جولائی کے اجلاس میں دیگر اہم مقدمات مقرر کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا،دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ دیگر اہم مقدمات بھی تعطیلات کے بعد مقرر ہونگے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین و قانون کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا،جج کا حلف رولز سے زیادہ آئین و قانون پر عملدرآمد کا متقاضی ہے،آئین پاکستان اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نظرثانی کا حق دیتا ہے،ججز کی ذاتی رائے آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتی،ججز کی عدم دستیابی اور تعطیلات آئینی حق کو ختم نہیں کر سکتیں،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق 15 روز کے اندر نظرثانی مقرر کرنا لازم ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ موسم گرما کی تعطیلات اور ججز کی دستیابی کے موقف سے اتفاق نہیں کرتا،تفصیلی فیصلہ جان بوجھ کر تاخیر سے جاری ہو تو فریقین کا حق متاثر ہوگا،بیرون ملک موجود جسٹس عائشہ ملک کیلئے ایک ہفتے کا وقت عدالتی کارروائی میں شامل ہونے کیلئے کافی ہے،آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی نظرثانی درخواست بھی جلد مقرر ہونی چاہئے،آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دو سال دو ماہ بعد بھی نہیں سنی گئی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین کو بنچ میں شامل کرنا چاہیئے تھا،آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس 10 روز میں مقرر ہونا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیں:مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینےکے فیصلے سے متاثرہ لیگی خواتین ارکان نے بڑا قدم اٹھا لیا