22 جون، اونٹوں کا عالمی دن

تحریر:بابر شہزاد تُرک

Jun 20, 2024 | 23:56:PM

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اونٹوں کا عالمی دن "ورلڈکیمل ڈے" 22 جون  کو منایا جاتا ہے، اِس دن کے منانے کامقصد چولستان، ریتلے ،دشوار گزار اور صحرائی علاقوں میں سفر کیلئے اونٹوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، صحراء کا جہاز کہلایا جانے والا اونٹ سخت جانور ہے، سخت حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، صحرا کی تپتی گرمی کو برداشت کرتا ہے، خوراک اور پانی کے بغیر کئی کئی دن گزار سکتا ہے، چونکہ 22 جون گرمی کا سخت ترین اور لمبا دن ہوتاہے اسی لئے اونٹ کے عالمی دن کیلئے اس تاریخ کا انتخاب کیا گیا ہے، دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اونٹ پائے جاتے ہیں وہاں اونٹوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، 22 جون کے دن ملک بھر میں محکمہ لائیو سٹاک، کیمل ایسوسی ایشن اور جانوروں کے حقوق کیلئے سرگرم دیگر تنظیموں کی جانب سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاہم اِس بار 22 جون کے دن ورلڈ کیمل ڈے پر سانگھڑ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کے افسوسناک واقعہ کی بھی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے اور ملوث افراد کو قانون کے مطابق فی الفور سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔


"اونٹ کی ثقافتی، سماجی و معاشی اہمیت"

عرب ثقافت اور ادب میں تو اونٹ کی اہمیت زبانِ زدِ عام ہے تاہم پاکستان کی ثقافت اور ادب میں بھی اونٹ کا ذکر مختلف زاویوں سے شاملِ حال رہتا ہے، خصوصاً سندھی اور بلوچی ثقافت کا اونٹ سے گہرا تعلق ہے، تھل اور چولستان کا تو ذکر ہی اونٹ کے بغیر نامکمل ہے، چولستان اور تھل ہو یا سندھ کا تھر اونٹ کا اِن علاقوں کی روزمرہ زندگی اور رہن سہن میں اہم کردار ہے، اِن علاقوں میں پانی اور خوراک کی ترسیل میں اونٹ کا بنیادی کردار ہوتا ہے، یہی اونٹ اِن علاقوں میں مال برداری کے بھی کام آتا ہے، اسی ثقافتی و معاشرتی تعلق کی بنیاد پر اونٹ کا ادب میں بھی ذکر ملتا ہے، اکثر لوک داستانوں میں بھی اونٹ ایک اہم کردار کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ زبان اور ثقافتوں سے اونٹ کے تعلق کی وجہ کوئی خیال یا روایت نہیں بلکہ پاکستان کے جس علاقے کی ثقافت میں بھی اونٹ پایا جاتا ہے،حقیقت میں بھی یہ جانور اُس علاقے کے رہن سہن کا بنیادی حصہ ہوتا ہے


"قومی زبان اُردو اور اونٹ"


اونٹ کا ذکر پاکستان کی ثقافت، ادب اور معاشرت میں اِک تواتر سے تو موجود ہے ہی، قومی زبان اُردو بھی جا بجا اونٹ کا تذکرہ کرتی ہے، خصوصاً اردو زبان کے متعدد اہم محاوروں میں اونٹ کی مثال دینا ہی لازم سمجھاجاتا ہے، اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی، جو اونٹ رکھتے ہیں وہ دروازے بھی اونچے بناتے ہیں، اُونٹ بَرابَر ڈِیل بڑھایا پاپوش برابر عَقْل نَہ آئی، اُونٹ دیکِھیے کِس کَل بَیٹھتا ہے، اُونٹ سے بَڑے نامھ چھوٹے خاں، اُونٹ کی داڑْھ میں زِیرا، اونٹ کے من٘ھ میں زیرا، اُونْٹ کے گَلے میں بِلّی، اُونٹ کے گَلے میں گَھنٹال، اُونْٹ کے گَلے میں مِیانَہ، اُونْٹ کے مُنْہ میں زیرہ، اُونْٹ مَرا کَپْڑے کے سر سمیت اونٹ کے ذکر سے لبریز اردو زبان میں استعمال کئے جانے والے عام محاورے ہیں، 


"پاکستانی معاشرے میں اونٹ ایک اہم ذریعہ روزگار"

اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں 11 لاکھ سے زائد اونٹ پائے جاتے ہیں، عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے جانور کے طور پر فروخت ہو کر بھی اونٹ روزگار کا ذریعہ بنتا ہے، یہ صرف مال برداری ہی نہیں بلکہ آمدن اور خوراک کا بھی ذریعہ ہے، اونٹ کا دودھ بھی صحت اور روزگار دونوں زاویوں سے کسی نعمت سے کم نہیں، اب تو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی شام کے اوقات میں سڑک کنارے اونٹوں کے ساتھ موجود دیہی خواتین و حضرات اونٹنی کا تازہ نکالا گیا دودھ فروخت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں


"اونٹ اور چولستان کی زندگی"

چولستان کی اگر بات کریں تو وہاں تو اونٹوں کے ریوڑ ملتے ہیں، یہ اونٹ خوراک کی غرض سے چولستان میں کھلے عام پھرتے ہیں،ہر قبیلے کے جانور پر ایک مخصوص نشان ہوتا ہے، سال میں 4 مرتبہ اکٹھے ہو کر اپنے اپنے بکھرے ہوئے اونٹوں کی شناخت کی جاتی ہے، اس سرگرمی کو ’’شوکر‘‘ کہتے ہیں، اونٹوں سے ملکی معاشی سطح پر فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہی ہے کہ جس کلچر میں جن لوگوں کے ساتھ یہ جانور رہتا ہے، اُن تک پہنچا جائے اُن کے مسائل کو سمجھا جائے اور اُن کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں، اونٹ عام گھروں میں کم ہوتا ہے مگر تھل اور چولستان کا کوئی گھر ایسا نہیں جہاں اونٹوں کے ریوڑ نہ ہوں، یہ ٹھیک ہے کہ عربوں نے بھی اونٹوں سے محبت کی ہے مگر وہاں کیمل جوکی جیسے غیر انسانی کھیل بھی کھیلے گئے ہیں، وسیب میں اونٹوں سے سراپا محبت کی جاتی ہے ،اونٹ اور اُن کے بچوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا جاتا ہے، وسیب میں اونٹوں کی مختلف اقسام ہیں اور ان اقسام کو ان کے رنگوں کے مطابق پکارا جاتا ہے، ان میں سے ’’کوہلی‘‘اونٹوں کا محافظ، ’’اوٹھی‘‘ اونٹ چرانے والا، ’’مہاری‘‘ شتر بان، ’’لاڈو‘‘ وزن اٹھانے والا، ’’ڈکھنا‘‘ گائیڈ، ’’بُڑک ‘‘ مست اونٹ، ’’مارہا‘‘سواری اٹھانے والا، ’’توڈا ،توڈی‘‘اونٹ کا بچہ ، بچی، ’’دوآگ‘‘ دو دانت، ’’چوگہ‘‘ چار دانت ، چھِگہ چھ دانت، ’’کھپڑ‘‘ بوڑھا اونٹ اور اس طرح بہت سے دوسرے نام ہیں


"اُردو شاعری میں اونٹ کا ذکرِ خاص"


اُردو ادب میں جتنی شاعری اُونٹ کے حوالے سے کی گئی ہے، شاید کسی اور جانور کے لئے نہیں کی گئی، برِصغیر کے معروف شاعر اسماعیل میرٹھی کی اونٹ کی توصیف میں لکھی گئی نظم عالمی شہرت کی حامل ہے، 


لق و دق صحرا میں یا میدان میں 

یا عرب کے گرم ریگستان میں 

سایہ فگن ہے نہ واں کوئی چٹان 

سرد پانی کا نہ دریا کا نشان 

چلچلاتی دھوپ ہے اور چپ ہوا 

واں پرندہ بھی نہیں پر مارتا 

تو وہاں کے مرحلے کرتا ہے طے 

دن بہ دن اور ہفتہ ہفتہ پے بہ پے 

قیمتی اشیا ہیں تیری پشت پر 

تاجروں کا ریشم اور شاہوں کا زر 

تودہ تودہ تیرے اوپر لد رہا 

ہے بھرا گویا جہاز پر بہا 

چند ہفتے جب کہ جاتے ہیں گزر 

اور تھکا دیتا ہے راکب کو سفر 

اونٹ! گھبراتا نہیں تُو بار سے 

دیکھتا ہے اُس کی جانب پیار سے 

گویا کہتا ہے کہ اے میرے سوار 

ایک دن تو اور بھی ہمت نہ ہار 

ہاں نہ بے دل ہو نہ رستے میں ٹھٹک 

صاف سر چشمہ ہے آگے دھر لپک 

مجھ کو آتی ہے ہوا سے بوئے آب 

ناامیدی سے نہ کر تو اضطراب 

اونٹ تو کرتا ہے اس کی رہبری 

یوں بنا دیتا ہے راکب کو جری 

آخرش منزل پہ پہنچاتا ہے تو 

اور سوکھے خار و خس کھاتا ہے تو 

صبر سے کرتا ہے طے راہ دراز 

سچ کہا ہے تو ہے خشکی کا جہاز 

الغرض تو ہے حلیم و خوش خصال 

تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال

مزیدخبریں