(24 نیوز) عمران خان نااہلی کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ درخواست میں ترمیم اور کیس قابل سماعت ہونے پر آرڈر جاری کر دینگے، اگر کیس قابل سماعت ہوا تو پھر آگے چلیں گے، اگر میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30 سیکنڈ کا کیس ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بنچ نے مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کی نااہلی کی درخواست پر سماعت کی۔
وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں موجود ریکارڈ میرا کیس ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے آپ نے کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل کرنے ہیں، اگر آپ میرٹ پر بھی دلائل دینا چاہتے ہیں وہ آپ کی مرضی ہے، درخواست میں ترمیم اور کیس قابل سماعت ہونے پر آرڈر جاری کر دینگے، اگر کیس قابل سماعت ہوا تو پھر آگے چلیں گے۔
وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے موقف اپنایا کہ جب عدالت نے نوٹس جاری کر دیا تو عمران خان کو میرٹ پر جواب جمع کرانا چاہئے تھا، عمران خان نے کیس کے میرٹ پر جواب جمع نہیں کرایا، عمران خان نے کیس قابل سماعت ہونے سمیت پانچ اعتراضات اٹھائے۔
وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ عمران خان نے اعتراض اٹھایا کہ وہ اب ممبر قومی اسمبلی نہیں ہیں، کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جا چکا، انہوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے اُس حلقے پر دوبارہ الیکشن کرانے سے روک رکھا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اس کے باوجود بھی وہ دوبارہ ممبر قومی اسمبلی نہیں بن جاتے، عمران خان اب اُس نشست سے تو ایم این اے تو نہیں ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان کا ایک دوسرے حلقے سے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے بعد اگر حلف نہ لیا جائے تو پھر سٹیٹس کیا ہو گا ؟ کیا پارٹی سربراہ پبلک آفس ہولڈر ہوتا ہے؟ اس پر مطمئن کریں، یہ دونوں سوالات اہم ہیں، ان پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک تو الیکشن ٹربیونل میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کی درخواست دی جا سکتی ہے، الیکشن ٹربیونل میں تو کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی، اب کیا عمران خان حلف لئے بغیر بھی پبلک آفس ہولڈر ہیں؟۔
جس پر وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ جی، انکی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس نکتے پر اب آپ نے مطمئن کرنا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کامیاب امیدوار قومی اسمبلی کا ممبر بن جاتا ہے، حلف لینے کے بعد وہ قومی اسمبلی میں بیٹھنے اور ووٹ دینے کا اہل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواستگزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اب قومی اسمبلی کے ممبر ہیں ؟ کیا آئین میں ممبر قومی اسمبلی یا سینیٹ کو حلف لینے کیلئے دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا ؟ جس پر وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے کہا کہ نہیں، آئین میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چوہدری نثار اور اسحاق ڈار کے ایسے کیسز موجود ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے پارٹی سربراہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس فیصلے کا پسِ منظر کیا تھا؟۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں بتاتا ہوں، میں اس کیس میں میاں نواز شریف کا وکیل تھا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اچھا، مختلف اوقات میں مختلف کردار۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا بیان حلفی کی شرط ابھی بھی موجود ہے؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی دینے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر غلط بیان حلفی دیا گیا ہے تو آپ توہین عدالت کی درخواست دائر کر دیں، اگر آئندہ الیکشن میں عمران خان وہی بیان حلفی دیتے ہیں تو یہ فریش کیس نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو ماضی ہے وہ ماضی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ مشرف دور میں بی اے تعلیم لازم قرار دیدی گئی اور بہت سے لوگوں نے جعلی ڈگریاں لیں، سمیرا ملک کیس میں سپریم کورٹ نے تفتیش کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا تھا جعلی ڈگری ثابت ہونے پر اُن کے خلاف ایف آئی آرز درج کی جائیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا اُن کیسز میں کچھ ہوا تھا ؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان سے متعلق تو امریکی عدالت کا فیصلہ موجود ہے، انہوں نے امریکی عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ بیان حلفی نہیں ڈکلیئریشن ہے، جس پر اوتھ کمشنر نے پاکستان میں دستخط کئے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان نے بطور والد بیٹی کی سرپرستی حوالے کرنے کا ڈکلیئریشن دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اُس ڈکلیئریشن میں والد کا لفظ تو کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی آج تحلیل ہو جاتی ہے تو پھر اس پٹیشن کا کیا بنے گا ؟۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ نااہلی تب تک رہے گی جب تک آرٹیکل 62 ون ایف آئین میں موجود ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فیصل واوڈا کا کیس بھی غلط بیان حلفی کی بنیاد پر تھا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ فیصل واوڈا کیس میں حالات و واقعات مختلف تھے، فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں جا کر معافی مانگ لی تھی۔ جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مطلب اس کیس میں بھی اگر آ کر معافی مانگ لی جائے تو پھر؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ فیصل واوڈا کے کاغذات نامزدگی اور شہریت چھوڑنے میں وقت بہت کم تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے تو کوئی بھی بعد میں آ کر کہہ دے کہ میں پہلے یہ ڈکلیئر نہیں کر سکا تھا، اگر کوئی آج کر معافی مانگ لے تو بات ختم اور کوئی معافی نہ مانگے تو تاحیات نااہل؟ اگر مان لیا جائے کہ بیان حلفی غلط تھا تو کیا تاحیات نااہلی ہو گی؟، اس عدالت نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دیا سپریم کورٹ نے فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔
دوران سماعت سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کیسز کا بھی تذکرہ ہوا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف کیس میں عمران خان ہی درخواست گزار تھے۔ جس پر عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے نا کہ کسی شخص کو بہت بعد میں پتہ چلے کہ اسکا ایک بچہ بھی ہے ؟ ہو سکتا ہے ناکہ وہ کافی عرصہ کسی اور احساس میں رہا ہو ؟ کیا اس بنیاد پر کوئی شخص نااہل ہو سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی شخص نے بچہ لے کر پالا ہوا ہے تو اس کو اپنے ڈیپنڈنٹس میں ظاہر کرنا ہوتا ہے ؟۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ درخواست گزار کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔