دنیا کی پہلی ویکسین کا استعمال ارتغرل کے دیس میں ہوا ۔۔ ضرور پڑھیں

May 20, 2021 | 09:56:AM
دنیا کی پہلی ویکسین کا استعمال ارتغرل کے دیس میں ہوا ۔۔ ضرور پڑھیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)دنیا کی پہلی ویکسین کہاں اور کیسے تیار ہوئی، اس حوالے سےشاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ دنیا میں پہلے پہل ویکسین کے طریقہ کار کا استعمال خلافت عثمانیہ (موجودہ ترکی) کے دور میں شروع ہوا۔ تاہم، یہ عمل اپنی ابتدائی شکل میں تھا جو ترکی میں برطانیہ کے سفیر کی اہلیہ لیڈی میری ورٹلی مانٹیگیو کے ذریعے برطانیہ پہنچا، جہاں ایک معالج ایڈورڈ جینر نے چیچک سے بچاؤ کی پہلی ویکسین تیار کر کے دنیا کو اس موذی مرض سے نجات دلائی۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق اس کہانی کی ابتدا لیڈی مانٹیگیو کے ایک خط سے ہوتی ہے جو انہوں نے 1717 میں استنبول سے لندن میں اپنے ایک دوست کو لکھا۔ اپنے خط میں انہوں نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ شاہی طبیب لوگوں کے جسم پر کٹ لگا کر ایک خاص چیز لگاتے ہیں جس سے وہ چیچک سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

یو ایس لائبریری آف میڈیسن اور بیلر یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی ویب سائٹس کے مطابق لیڈی مانٹیگیو کے شوہر ایڈورڈ مانٹیگیو 1717 سے 1721 تک ترکی میں برطانیہ کے سفیر تھے۔ ان کی اہلیہ میری مانٹیگیو کو چیچک کے علاج میں گہری دلچسپی تھی کیونکہ وہ اس موذی مرض کے تلخ تجربات اور مشاہدات سے گزر چکی تھیں۔ برطانیہ کے امیر کبیر گھرانے کی یہ خاتون بمشکل اس مہلک وبا سے اپنی جان بچا پائی تھیں، لیکن یہ مرض ان کے جسم پر کئی بدنما داغ چھوڑ گیا تھا۔ان کے کئی قریبی عزیز اور دوست چیچک سے ہلاک ہو چکے تھے، جس سے ان کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا اور وہ اپنے بچوں کو اس وبا سے محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔یہ وہ دور تھا جب چیچک کی وبا یورپ سمیت کئی ملکوں میں تباہی پھیلا رہی تھی۔ 18 ویں صدی میں ہر سال صرف یورپ میں چار لاکھ کے لگ بھگ افراد اس وبا سے ہلاک ہو جاتے تھے جب کہ صحت یاب ہونے والوں میں سے ایک تہائی اپنی بینائی کھو بیٹھتے تھے اور باقی ماندہ کے چہروں اور جسم پر بدنما داغ پڑ جاتے تھے۔اس دور میں ہلاکت خیز وبا کا کوئی علاج دستیاب نہیں تھا۔لیڈی میری ورٹلی اپنے شوہر ایڈورڈ مانٹیگیو کے ہمراہ جب 1717 میں استنبول پہنچیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ترکی میں چیچک کی وبا کنٹرول میں تھی کیونکہ وہاں لوگوں کا ایک خاص طریقے سے علاج کیا جاتا تھا جس کے بعد انہیں چیچک نہیں ہوتی تھی۔لیڈی مانٹیگیو کو اس طریقہ کار پر اس قدر بھروسہ ہوا کہ انہوں نے سفارت خانے کے معالج چارلس میڈلینڈ کے ساتھ اپنے پانچ سالہ بیٹے کو چیچک سے بچاؤ کا کٹ لگوانے کے لیے شاہی طبیب کے پاس بھجوایا۔سن 1721 میں جب سفارتی مدت ختم ہونے کے بعد مانٹیگیو خاندان وطن واپس لوٹا تو ڈاکٹر میڈلینڈ بھی ان کے ساتھ تھا۔اس نے تاج برطانیہ کے معالجوں کو اس طریقہ علاج پر قائل کرنے کے لیے مانٹیگیو کی چار سالہ بیٹی کو ان کے سامنے کٹ لگا کر ایک دوا لگائی جو وہ ترکی سے اپنے ساتھ لایا تھا۔مانٹیگیو سے پہلے بھی ترکی کا سفر کرنے والے تاجر چیچک کے علاج کی خبریں لاتے تھے اور ان کے توسط سے یورپ والوں کو معلوم تھا کہ کوہ قاف اور وسطی ایشیائی روسی ریاستوں سے عثمانی سلطنت کے محل کے لئے لائی جانے والی خوبصورت لڑکیوں کو بھی اسی طریقے سے چیچک سے محفوظ کیا جاتا تھا تاکہ شاہی محل میں رہنے والے چیچک جیسے کسی مرض کا شکار نہ ہوں۔ان میں سے کئی کنیزیں بعد ازاں طاقتور ملکہ بنیں اور امور سلطنت میں ان کا گہرا عمل دخل رہا۔ترکی میں چیچک کے علاج سے متعلق معلومات کے باوجود برطانیہ کے شاہی معالج اس طریقہ علاج کو ٹوٹکا قرار دے کر نظرانداز کرتے رہے، لیکن جب ایک برطانوی سفیر کے خاندان نے اپنی بیٹی کو اس تجربے کے لیے پیش کیا تو انہوں نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور تاج برطانیہ نے ڈاکٹر میڈ لینڈ کو چھ قیدیوں پر یہ تجربہ کرنے کا لائسنس دے دیا۔انہیں کٹ لگا کر دوا دی گئی اور کچھ عرصے کے بعد انہیں چیچک زدہ ماحول میں رکھا گیا، لیکن وہ محفوظ رہے۔

شاہی خاندان اس تجربے سے اتنا متاثر ہوا کہ پرنسز آف ویلز کی دو بیٹیوں کو بھی یہ دوا دی گئی جس سے برطانیہ میں ویکسین کی تیاری کی جانب سنجیدہ کوششوں کی ابتدا ہوئی اور بالآخر 1796 میں ڈاکٹر ایڈورڈ جنز نے چیچک زدہ گائے سے حاصل کردہ مواد سے دنیا کی پہلی ویکسین متعارف کرائی جس نے آنے والے برسوں میں دنیا سے اس موذی وبا کا خاتمہ کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور میں صبح سویرے بارش، اسلام آباد میں شام کو رم جھم ہو گی