ایرانی صدر کے زیر استعمال ’بیل 212 ہیلی کاپٹر‘ کا سیفٹی ریکارڈ کیسا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں

May 20, 2024 | 22:05:PM
ایرانی صدر کے زیر استعمال ’بیل 212 ہیلی کاپٹر‘ کا سیفٹی ریکارڈ کیسا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
کیپشن: ایرانی صدر کے زیر استعمال ’بیل 212 ہیلی کاپٹر‘ کا سیفٹی ریکارڈ کیسا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
سورس: 24 News
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے زیر استعمال ’بیل 212 ہیلی کاپٹر‘ کے سیفٹی ریکارڈ سے متعلق تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔

’بیل 222 ہیلی کاپٹر‘ جاپانی کوسٹ گارڈ کے زیرِ استعمال ہے، امریکہ میں یہ ہیلی کاپٹر فائر ڈیپارٹمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے استعمال کرتے ہیں، تھائی لینڈ کی نیشنل پولیس بھی اس ہیلی کاپٹر کو استعمال کرتی ہے۔

ایرانی صدر کی وفات سے قبل یہ ہیلی کاپٹر ستمبر 2023 میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، پھر ایک پرائیویٹ آپریٹر کا یہ ہیلی کاپٹر متحدہ عرب امارات میں گر کر تباہ ہو ا، اس قسم کا حادثہ ایران میں 2018 میں پیش آیا تھا تب اس حادثے میں 4 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ستمبر 2013 میں بیل 212 ٹوئن بلیڈ ہیلی کاپٹر بھارتی شہر ممبئی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک ہوئے تھے، 1972 سے 2024 تک بیل 212 کو لگ بھگ 432 حادثے پیش آ چکے ہیں جن میں تقریباً 630 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف کا ایرانی سفارت خانے کا دورہ

صدری رئیسی کے ہیلی کاپٹر گرنے کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن ہوائی نقل و حمل کی حفاظت کے معاملے میں ایران کا ریکارڈ خراب رہا ہے، اس کی ایک وجہ کئی دہائیوں سے عائد امریکی پابندیاں بھی بتائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ایران کا ہوابازی کا شعبہ کمزور ہوا ہے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بیل 212 ہیلی کاپٹر پر سوار تھے، یہ ماڈل امریکہ میں بنایا گیا تھا، ماضی میں ایران کے دفاع اور ٹرانسپورٹ کے وزراء کے علاوہ ایران کی فوج اور فضائیہ کے کمانڈر بھی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے حادثوں میں ہلاک ہوئے ہیں، مئی 2001 میں ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ کا طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس کا ملبہ ڈھونڈنے کے لیے کافی کوششیں کرنا پڑی تھیں، اس طیارے میں 28 افراد سوار تھے اور بتایا گیا تھا کہ حادثے میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا۔

جب ایرانی حکومت کی جانب سے ملکی طیاروں کو جدید بنانے کی کوششیں کی گئیں تو مغربی ممالک کے ساتھ بھی کچھ معاہدے کیے گئے اور اس میں پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے بھی بات کیے گئے تھے، تاہم یہ کوششیں اس وقت رک گئیں جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور پھر پابندیاں عائد کر دیں۔