(24 نیوز)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ یقینا ججز کو سننا چاہئے ،ہمیں آپ سوال کرنے کا حق دیدیں ،پھر آپ ہمارے فیصلوں پر تنقید کیجئے مجھے کوئی رنجش نہیں ہوگی، آئین پاکستان ہر ممبر کو برابر کا ووٹ کاحق دیتا ہے،حکومت کے سامنے کبھی ہاتھ نہ پھیلائیں ،جب آپ کسی سیاستدان سے رقم وصول کرینگے تو کچھ واپس دیتے بھی ہیں ،بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن کو خود مختار ہونا چاہئے،آپ بھی ہاتھ نہ بڑھائیں آپ کا بھی وقار بلند ہوگا ہمارا بھی۔
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سالانہ ڈنر کا اہتمام کیاگیا، جس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ،چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی شیخ ،صدر سندھ ہائیکورٹ بار شہاب سرکی،نائب صدر شازیہ تسلیم،جنرل سیکرٹری عمر سومرو اور دیگر نے شرکت کی،اس موقع پر سندھ ہائیکورٹ کے اطراف سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے،تقریب میں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کی جانب سے جسٹس قاضی فائز کو سندھی ٹوپی اور اجرک پیش کی گئی اورخصوصی شیلڈ سے بھی نوازا گیا،تقریب میں شرکت کرنے والے دیگر مہمانوں کو بھی شیلڈ پیش کی گئی۔
جسٹس مقبول باقرنے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کئی سالوں سے میری خواہش رہی ہے آپ کو مبارکباد دوں ہم آئین کے حکمرانی ملک میں نافذ کرنے میں کامیاب رہے ہیں،ہمارے ملک میں غیر جمہوری طاقتوں کی مداخلت رہی ہے،ہماری موجودہ زبوں حالی کافی حد تک خود ساختہ بھی ہے،فوجی مداخلت نے ہمارے ملک میں کبھی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ 75 سال قبل مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک وجود میں آیا،آزادی کا خواب ایک بیرسٹر نے دیکھا ،آزادی کی مشعل ایک بیرسٹر نے جلائی یعنی محمد علی جناح،میرے والد اور امیر احمد خان جن کے نام پر محمودآباد کا علاقہ ہے،برصغیر کے مسلمانوں میں امیر ترین سمجھے جاتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ راجہ صاحب نے فرمایا میرے لیے ملک سے محبت کرنا لوگوں سے محبت کرنا ہے، ہم اس آزادی کو قائم نہ رکھ سکے،سات سال ہی گزرے تھے قیام پاکستان کے بعد گھر کے رکھوالے نے گھر پر حملہ کر دیا،جس شخص نے عدالت کا دروازہ کا کھٹکھٹایا اس کا نام مولوی تمیز الدین خان۔
انہوں نے کہاکہ جب آپ کسی مسئلے کا شکار ہوں اور اصولوں کو نظر انداز کریں تو پھر لمبے فیصلے کرنا پڑتے ہیں،مجھے سات صفحوں کا فیصلہ سمجھ آ گیا تھا ،سچی بات اصولی بات کم لفظوں میں کہہ دی جاتی ہے ،ایک اور بھی ایسا فیصلہ ہے جو مجھے بتاتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے ،950 پیراگراف سے زائد ایک فوجداری کے مقدمے میں اتنا بڑا فیصلہ میں نے نہیں دیکھا۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ اور تحریک کا ذکر کیا گیا ،وکلا نے اپنے لیے تحریک نہیں چلائی تھی وکلا نے شہریوں کیلئے تحریک چلائی اور اس تحریک میں سب سے زیادہ قربانی اہلیان کراچی نے دی ،مسلح افراد نے لوگوں کو قتل کیا ،ایک طرف گولیاں برسائی گئیں ،وکلا کی تحریک پر امن تحریک تھی۔
ضرور پڑھیں :عمران خان نے کارکنوں کو26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کی کال دیدی
انہوں نے کہاکہ رانا بھگوان داس ایک ہندو تھے،وہ زیارت کیلئے ہندوستان گئے تھے،یہ جو کام ہوئے ہیں یہ کسی جج کی نوکری بچانے کےلئے نہیں ہوئے تھے،آزاد عدلیہ اس ملک میں رہے ہر شہری یہی چاہتا ہے،آئین اس بات کا تقاضہ کرتا ہے،پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی یہی بات کہی ،انہوںنے کہاکہ سمجھتا ہوں میں آج وکیل ہوں جج نہیں کیونکہ دوستوں میں کھڑا ہوں ،وکیلوں میں سب سے زیادہ بلوچستان کے وکیلوں نے قربانیاں دیں،یہ جو زندگی ہے کچھ لمحوں کی زندگی ہے،میں بھی جوابدہ ہوں یہاں نہیں تو اوپر تو ہوں،میں ہمیشہ کہتا ہوں اداروں پر تنقید نہ کریں شخصیات پر کریں،میں نہ تو فرشتہ ہوں نہ کوئی جج فرشتہ ہوتا ہے۔
ان کاکہناتھا کہ یقینا ججز کو سننا چاہئے ،ہمیں آپ حق دیدیں سوال کرنے کا ،پھر آپ ہمارے فیصلوں پر تنقید کیجئے مجھے کوئی رنجش نہیں ہوگی، آئین پاکستان ہر ممبر کو برابر کا حق دیتا ہے ووٹ کا،حکومت کے سامنے کبھی ہاتھ نہ پھیلائیں ،جب آپ کسی سیاستدان سے رقم وصول کرینگے تو کچھ واپس دیتے بھی ہیں ،بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن کو خود مختار ہونا چاہئے،آپ بھی ہاتھ نہ بڑھائیں آپ کا بھی وقار بلند ہوگا ہمارا بھی۔