شاعری کے اک نئے دبستان کا بانی، جس نے جدید اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنار کیا

فیض نے مجموعی طور پر اک عام ادیب و شاعر سے سے بہتر زندگی گزاری, وہ ہمیشہ لوگوں کی محبت میں گھرے رہے

Nov 20, 2022 | 13:03:PM
فیض, بین الاقوامی, حسن و عشق, فلسفہ, انگریزی تعلیم, میاں افتخار الدین
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

فیض کی شاعرانہ قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا نام غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوئے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں، اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی ہے۔ غنایئت اور رجائیت ٖفیض کی شاعری کے امتیازی عناصر ہیں۔ خوابوں اور حقیقتوں، امیدوں اور نامرادیوں کی کشاکش نے ان کی شاعری میں گہرائی اور تہ داری پیدا کی ہے۔ ان کا عشق درد مندی میں ڈھل کر انسان دوستی کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر یہ انسان دوستی اک بہتر دنیا کا خواب بن کر ابھرتی ہے۔ ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی، سرشاری اور پہلوداری ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض نے شاعری کا اک نیا دبستاں قائم کیا۔ 

 

 اپنی ادبی خدمات کے لئے فیض کو بین الاقوامی سطح پر جتنا سراہا اور نوازا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا جو اس وقت کی ذو قطبی دنیا میں نوبیل انعام کا بدل تصور کیا جاتا تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے ان کو نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ 1976 میں ان کو ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔ 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ "نشان امتیاز" سے نوازا اور پھر سال 2011 کو "فیض کا سال" قرار دیا گیا۔ 

فیض 13فروری 1911ء کو پنجاب کے ضلع نارووال کی اک چھوٹی سی بستی کالا قادر(اب فیض نگر) کے ایک فارغ البال علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد سلطان خاں بیرسٹر تھے۔ فیض کی ابتدائی تعلیم مشرقی انداز میں شروع ہوئی اور انھوں نے قرآن کے دو سپارے بھی حفظ کئے پھر عربی فارسی کے ساتھ انگریزی تعلیم پر بھی توجہ دی گئی۔ فیض نے عربی اور انگریزی میں ایم۔ اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم فلسفہ اور انگریزی ان کے خاص مضامین تھے۔ اس کالج میں ان کو احمد شاہ بخاری "پطرس" اور صوفی غلام مصطفی تبسم جیسے استاد اور مربی ملے۔ تعلیم سے فارغ ہو کر 1935 میں فیض نے امرتسر کے محمڈن اورینٹل کالج میں بطورلیکچرر ملازمت کرلی۔ یہاں بھی انھیں اہم ادیبوں اور دانشوروں کی صحبت ملی جن میں محمد دین تاثیر، صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ رشید جہاں، سجّاد ظہیر اور احمد علی جیسے لوگ شامل تھے۔ 1941 میں فیض نے ایلس کیتھرین جارج سے شادی کرلی۔ یہ تاثیر کی اہلیہ کی چھوٹی بہن تھیں جو 16 سال کی عمر سے برطانوی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھیں۔ شادی کی سادہ تقریب سرینگر میں تاثیر کے مکان پر منعقد ہوئی۔ نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ مجاز اور جوش ملیح آبادی نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ 

 

1947 میں فیض نے میاں افتخار الدین کے اصرار پر ان کے اخبار "پاکستان ٹائمز" میں مدیر اعلی کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ سال 1951فیض کی زندگی میں صعوبتوں اور شاعری میں نکھار کا پیغام لے کر آیا۔ ان کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں، جسے راولپنڈی سازش کیس کہتے ہیں، گرفتار کرلیا گیا۔ تقریباً پانچ سال انہوں نے پاکستان کی مختلف جیلوں میں گزارے۔ آخراپریل 1955 میں ان کی سزا معاف ہوئی اور رہائی کے بعد وہ لندن چلے گئے۔ 1958 میں فیض پاکستان واپس آئے لیکن جیل خانہ ایک بار پھر ان کا منتظر تھا۔ اسکندر مرزا کی حکومت نے کمیونسٹ مواد شائع اور تقسیم کرنے کے الزام میں ان کو پھر گرفتار کرلیا۔ اس بار ان کو ذوالفقارعلی بھٹو کی کوششوں کے نتیجہ میں 1960 میں رہائی ملی اور وہ پہلے ماسکو اور پھر وہاں سے لندن چلے گئے۔

فیض صاحب کے جیل کے دنوں کا ایک بڑا مشہور واقعہ ہے کہ جب ان کو لاہور کی جیل سے زنجیروں میں جکڑ کر جانی پہچانی گلیوں سے تانگے میں لے جایا جا رہا تھا، تو لوگوں نے انہیں پہچان لیا اور اس تانگے کا پیچھا کیا۔ اس احساس کا اظہار انہوں نے اس نظم کے ذریعہ کیا۔

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے 

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو 

 1962 میں فیض صاحب کو لینن امن انعام ملا۔لینن انعام ملنے کے بعد فیض کی شہرت، جو ابھی تک ہندوستان اور پاکستان تک محدود تھی، ساری دنیا بالخصوص سوویت بلاک کے ممالک تک پھیل گئی۔ انھوں نے کثرت سے غیرملکی دورے کئے اور وہاں لیکچرز دیے۔ ان کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہونے لگے اور ان کی شاعری پر تحقیقی کام شروع ہوگیا۔ 1964 میں فیض پاکستان واپس آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ ان کو عبداللہ ہارون کالج کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ان کو کئی اہم عہدے دیے جن میں وزارت ثقافت کے مشیر کا عہدہ بھی شامل تھا۔ 1977 جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو فیض کے لئے پاکستان میں رہنا ناممکن ہوگیا۔ ان کی سخت نگرانی کی جا رہی تھی اور کڑا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔ ایک دن وہ ہاتھ میں سگریٹ تھام کر گھر سے یوں نکلے جیسے چہل قدمی کے لئے جا رہے ہوں اور سیدھے بیروت پہنچ گئے۔ اس وقت فلسطینی تنظیم آزادی کا مرکز بیروت میں تھا اور یاسر عرفات سے ان کا یارانہ تھا۔ بیروت میں وہ سوویت امداد یافتہ رسالہ "لوٹس" کے مدیر بنا دیے گئے۔ 1982 میں، خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض پاکستان واپس آ گئے۔ وہ دمہ اور لو بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ 1984 میں انھیں ادب کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا لیکں کسی فیصلہ سے پہلے 20 نومبر 1984 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ 

 

فیض نے مجموعی طور پر اک عام ادیب و شاعر سے سے بہتر زندگی گزاری۔ وہ ہمیشہ لوگوں کی محبت میں گھرے رہے۔ وہ جہاں جاتے لوگ ان سے دیوانہ وار پیار کرتے۔ فیض بنیادی طور پر رومانی شاعر ہیں اور ان کی شاعری کو معاشقوں کی کمک برابر ملتی رہی۔ ایک بار امرتا پریتم کو رازدار بناتے ہوئے انھوں نے کہا تھا "میں نے پہلا عشق 18 سال کی عمر میں کیا۔ لیکن ہمت کب ہوتی تھی زبان کھولنے کی۔ اس کا بیاہ کسی ڈوگرے جاگیردار سے ہو گیا۔" دوسرا عشق انھوں نے ایلس سے کیا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ پردہ نشینوں سے ان کے تعلقات تھے جن کو انھوں نے پردہ میں ہی رکھا۔ 

فیض بنیادی طور پر رومانی شاعر ہیں۔ رومانیت ان کی فطرت ہے۔ وہ زندگی کی الجھنوں پریشانیوں اور تلخیوں کا سامنا اک حساس شاعر کی طرح کرتے ہیں لیکن نہ بغاوت پر اترتے ہیں اور نہ نعرے لگاتے ہیں بلکہ ان تلخیوں کو سہتے ہوئے اس زہر کو امرت بنا دیتے ہیں۔ وہ ایک عہد ساز شاعر تھے اور ایک پورے عہد پر اثرانداز ہوئے۔ ان کی شاعری میں کئی اردو، انگریزی شعرا کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن آواز ان کی اپنی ہے۔ وہ اس لحاظ سے ترقی پسند شعرا کے میر کارواں ہیں کہ انھوں نے جدید عہد کے تقاضوں سے اپنی شاعری کو ہم آہنگ کیا۔ ان کی غزلوں میں ایک نیا لب و لہجہ اور نیا تصور عشق ملتا ہے۔ اس میں اک نئی کیفیت کے ساتھ ساتھ تازہ احساس اوراک خاص ولولہ ملتا ہے جس میں تازگی اور شگفتگی ہے۔ عالمی سطح پر زبان و استعارہ میں کوئی مناسبت نہ ہونے کے باوجود کچھ شاعرانہ تجربات مشترک ہوتے ہیں۔ محبت دنیا میں سب کرتے ہیں اور جبر و استحصال کسی نہ کسی شکل میں بنی نوع انسان کا مقدر رہا ہے۔ فیض نے انسانی زندگی کے ان دو پہلوؤں کو اس قدر یک جان کر دیا کہ عشق کا درد اور جبر و استحصال کی اذیت اک دوسرے میں مدغم ہو کر اک فریادی بن گئی۔ فیض کی شاعری کی عالمگیر اپیل اور اس کی بین الاقوامی مقبولیت کا یہی راز ہے۔ 

 

فیض کی تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادیٔ سینا، شام شہر یاراں اور میرے دل مرے مسافر کے علاوہ نثر میں میزان، صلیبیں مرے دریچے میں اور متاع لوح و قلم شامل ہیں انھوں نے دو فلموں جاگو سویرا اور دور ہے سکھ کا گاؤں کے لئے گیت بھی لکھے۔ فیض اور ایلس کی مشترکہ تخلیقات میں ان کی دو بیٹیاں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی ہیں۔

”بشکریہ: ریختہ“