(24 نیوز)نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے ہم غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کا ہولو کاسٹ دیکھ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں بچوں کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقد کی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا حکومت بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے اور بچوں کی فلاح و بہود کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، معاشرے کے تمام طبقات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کے لیے ریاست کریں۔
وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا اس وقت غزہ کے بچے میرے ذہن میں ہیں، ہم غزہ میں فلسطینی بچوں کا ہولو کاسٹ دیکھ رہے ہیں، فلسطینی بچوں کا ہولو کاسٹ فوری طور پر روکا جائے۔ اسرائیلی ریاست سمجھتی ہے کہ وہ ملٹری کی وجہ سے بہت طاقتور ہے لیکن پیشہ ورانہ افواج مقابل فوجوں سے لڑتی ہیں نہتے بچوں کا قتل عام نہیں کرتیں، نہتے بچوں کا قتل حقوق انسانی اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا غزہ میں ہونے والے واقعات کو مذہب سے ہٹ کر انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جائے، ہم غزہ کے بچوں کے سامنے شرمندہ ہیں، فلسطین میں پیدا ہونے والی صورتحال مستقبل کے تنازعات کی اہم وجہ بنے گی، اس صورتحال کا آنے والی صدیوں میں کبھی دفاع نہیں کیا جاسکے گا، غزہ میں نے والی نسل کشی کے خلاف پاکستان آواز اٹھاتا رہے گا۔
عمران خان کو گرفتار کیا نہ ہی شاہی فرمان سے رہا کرسکتے ہیں:وزیراعظم
اس سے قبل نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو نہ نگران حکومت نے گرفتار کیا ہے اور نہ شاہی فرمان کے ذریعے ان کو رہا کر سکتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں زہر دینے کا الزام غیر ذمہ دارانہ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں مکمل محفوظ اور ہماری ذمہ داری ہیں۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ9 مئی کو فوج نے صبر و تحمل سے کام لیا، یہاں کوئی اذیت پسند لوگ نہیں کہ جنہیں چیئرمین پی ٹی آئی سے ذاتی بدلہ لینا ہو، دیگر جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی لیڈر بھی اپنےعلاقوں میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ شفاف الیکشن ہوں، 1970 کے علاوہ کوئی الیکشن ایسا نہیں جسے تنازعے کی طرف دھکیلا نہ گیا ہو، الیکشن سے متعلق تحفظات کے ایک نکتے پر اے پی سی بلانا مجھے ہضم نہیں ہو رہا، اگر الیکشن کے بعد کسی کی شکایت ہے تو اس کیلئے فورم موجود ہے۔ میرے پشتون ہونے کیلئے کسی سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں، افغانستان میں پشتونوں سمیت ہر ایک کیلئے یکساں احترام ہے لیکن میری وفاداری ریاست کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
ضرورپڑھیں:پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب سے ن لیگ کی بڑی وکٹ گرا دی
انہوں نے کہا کہ افغان ریاست سے متعلق میرے بیان کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا، پاکستان، افغانستان کو ایماندارانہ سوچنا چاہیے کہ ایک دوسرے سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ افغان طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغان سرزمین پر موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو سال قبل جو مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا تو ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے۔ اب یہ فیصلہ افغان طالبان کو کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہمارے حوالے کرنا ہے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے۔ یہ بات قابل برداشت نہیں کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور افغان طالبان تماشا دیکھتے رہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء نے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ٹی ٹی پی سے متعلق موجودہ حکومتی پالیسی کی حمایت کی ہے، کسی کو ریاست سے مذاکرات کرنا ہے تو سب سے پہلے ہتھیار پھینکیں، ہتھیار اٹھانے کا جواز ہی ناجائز ہے، جب ہتھیار چھوڑیں گے تب سوچا جائے گا کب اور کیسے مذاکرات کیے جائیں گے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بندوق کی نوک پر مذاکرات کریں گے تو یہ غلط فہمی دور کرلیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ امریکا اور دیگر قوتوں کا گھر افغانستان نہیں ہے، گھر کی قوت ان کو گھر سے نکالنا چاہتی ہے، لیکن پاکستان ایک گھر ہے جو میرا ہے اور ٹی ٹی پی بھی اسکو شیئر کرتی ہے۔ ریاست کی ذمہ داری لیتے ہیں تو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، کسی رجسٹرڈ افغان مہاجر کو واپس بھیجنے کی پالیسی نہیں، غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جارہا ہے۔
انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ افغان شہریوں کے ساتھ ہم نے بہتر رویہ اختیار کیا ہے، غیر قانونی طور پرمقیم افراد واپس جاکر قانونی طور پر واپس آئیں، موجودہ افغان طالبان حکومت کے بعد پاکستان آنیوالے افغانوں کی کیٹیگری الگ ہے۔
اپنی گفتگو کے دوران سی پیک اور پاک چین تعلقات سے متعلق بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پاک چین اسٹریٹجک تعلقات کی تشریحات درست ہیں، چین چاہتا ہے کہ ہماری طرف سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلئے تعاون زیادہ ہو۔
فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت سے متعلق بات کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ڈائیلاگ اور طاقت کے استعمال کا وقت ہوتاہے، خصوصاً بچوں کیلیے غزہ کو جہنم بنادیا گیا ہے۔