کسی بھی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو سنگین نتائج ہونگے: سپریم کورٹ

Oct 20, 2022 | 14:43:PM

 (24 نیوز) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر ریمارکس دیئے کہ آپ قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں، شہر کے علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں، ابھی تک تو فی الحال تقریریں ہیں، آپ شہری علاقوں میں جہاں تھریٹس ہیں وہاں اقدامات کریں، کسی بھی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

 چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ وزارت داخلہ کی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت میں موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، اس درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے حکم پر سری نگر ہائی وے گراؤنڈ کے راستے کھول دیئے گئے تھے جو انہوں نے خود مانگا تھا مگر کارکنان کال پر ڈی چوک کی طرف آ گئے، کارکنان ریڈزون کی طرف آئے جہاں ان کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان بھی پہنچایا، مظاہرین کے ریڈزون کی طرف آنے پر 25 مئی کی رات متفرق درخواستیں دائر کیں جس میں ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے 25 مئی کا عدالت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران وکلاء تحریک انصاف لیڈر شپ کے ساتھ رابطے میں تھے، عدالتی حکمنامہ میں کارکنان کی پکڑ دھکڑ سے روک دیا گیا تھا، عدالت نے پی ٹی آئی لیڈر شپ کو اپنے کارکنان کو پرسکون رکھنے کی بھی ہدایت کی تھی، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ فی الحال تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد، وزارت داخلہ اور چیف کمشنر سے بھی رپورٹ طلب کی تھی، متعلقہ اداروں نے رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرائیں مگر مجھے ان رپورٹس کی کاپی نہیں مل سکی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹس کی کاپی آپ کو فراہم کر دی جائے گی، آپ کو کاپی ملنے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا کرتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عبوری حکم جاری کریں؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ احتجاج کرنا بنیادی حق ہے مگر عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں، تعلیمی اداروں اور جامعات میں جا رہے ہیں اور اپنی تقریروں سے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان ہے، آپ قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں، شہری علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں، ابھی تک تو صرف تقریریں ہیں، آپ شہری علاقوں میں جہاں تھریٹس ہیں وہاں اقدامات کریں، رپورٹس میں بڑے ٹھوس جوابات دیئے گئے ہیں، 31 شہری 25 مئی کو تصادم سے زخمی ہوئے، عمران خان نے اگلی صبح لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب لوگ ہوں تو آپ کی استدعا ہونی چاہیے کہ ہجوم کو روکیں، ابھی تو کوئی ہجوم ہی نہیں ہے، اگر اس دوران کچھ ہوتا ہے تو آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں، اس دوران کچھ ہوا تو فوری ایکشن لیں گے، آئین و قانون کے مطابق اقدامات اٹھانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ کوئی آکر کہہ دے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کا کوئی ارادہ نہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم دوسری بار ان سے یقین دہانی لیں ؟ انتظامیہ اپنے آپ کو صورتحال کیلئے مکمل تیار کرے، جب کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو مداخلت کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی پولیس اسلام آباد آچکی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں، آپ ایڈوانس میں ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے، جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آسکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ عوام کا سیلاب آسکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہاں عوام کا سیلاب ؟ گزشتہ مرتبہ دو تین سو لوگ کلوز ایریا میں داخل ہوئے تھے، ہمارے خیال میں وہ دو تین سو لوگ بھی مقامی تھے اور وہ لوگ مظاہرین کے ساتھ نہیں آئے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اس چیز کو دوبارہ دوہرا رہے ہیں ؟ جب بھی ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی پہنچیں گے، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہمارا کام توازن رکھنا ہے، احتجاج کا حق بھی مشروط ہے، کسی بھی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ چیف جسٹس نے سماعت آئندہ ہفتے بدھ تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں