توشہ خانہ کا طوفان کیسے اٹھا؟؟؟
صبیح الدین شعیبی
Stay tuned with 24 News HD Android App
عمران خان کو بطور وزیراعظم کتنے تحفے ملے؟ یہ حساب جاننے کی کوشش کرنے والے اسلام آباد کے صحافی ابرار خالد کو جب کابینہ ڈویژن نے ٹکا سا جواب دے کر خالی ہاتھ لوٹایا تو انہوں نے ”رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ“ کے تحت انفارمیشن کمیشن کا رخ کیا۔ کمیشن نے حکومت کو معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا۔
یہ کیس اپریل 2022 میں میڈیا کےسامنے آیا جب حکومت نے انفارمیشن کمیشن کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور اور تحفوں کو قومی راز قرار دیتے ہوئے مو¿قف اختیار کیا کہ ان کی تفصیل سامنے آنے سے دوست ملکوں سے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔
انہی دنوں جب صحافیوں نے عمران خان سے تحفوں کے متعلق سوال کیا تو ان کاجواب تھا؛ ”میرا تحفہ میری مرضی“
میڈیا پر بہت شور ہوا۔۔۔ مگر ٹھوس کارروائی شروع ہوئی اگست میں، جب پانچ حکومتی ارکان کی درخواست پرسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے عمران خان کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا۔
اٹھارہ اگست کو الیکشن کمیشن میں عمران خان کی طرف سے موقف اختیارکیا گیا کہ عمران خان اب رکن اسمبلی نہیں رہے جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ استعفیٰ منظور ہوا نہ عمران خان ڈی نوٹیفائی ہوئے؛ الیکشن کمیشن کی نظر میں وہ اب بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آج سنائے گا
جواب دئیے بنا چارہ نہ رہا۔۔۔ تو 7 ستمبر کو تحریری جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا کہ تقریباً پونے 6 کروڑ کے تحفے انہوں نے فقط 2 کروڑ 16 لاکھ روپے ادا کرکے حاصل کئے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وزیراعظم رہتے ہوئے انہوں نے ان میں سے 4 تحفے فروخت بھی کردئیے تھے۔
انیس ستمبر کو ریفرنس کی آخری سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ سپیکر آرٹیکل ون ایف کے تحت ریفرنس بھیجنے کااہل ہی نہیں۔ علی ظفر نے یہ مو¿قف بھی اختیار کیا کہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ عدالتوں کا اختیارہے، اور سپریم کورٹ کہہ چکی ہے الیکشن کمیشن عدالت نہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو آج سنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آڈیو لیکس کے معاملے پر عمران خان عدالت عظمیٰ کیوں گئے؟؟؟