صدر مملکت کے دستخط ،26 ویں آئینی ترمیم آئین کاحصہ بن گئی

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، منظوری کیلئے 225 ارکان اسمبلی نے ووٹ دیئے،حکمران اتحاد کے 215 میں سے 213 ارکان نے ووٹ دیا،آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کردیاگیا

Oct 20, 2024 | 18:12:PM

(اویس کیانی)سینیٹ اورقومی اسمبلی سے منظوری کے بعدصدر مملکت آصف علی زرداری نے 26ویں آئینی ترمیم پر دستخط کردیئے جس کے بعد آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کردیاگیاجس کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم آئین کاحصہ بن گئی ہے۔  

ایوان بالا (سینیٹ)کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 26ویں آئینی ترمیمی بل کی  کثرت رائے سے منظوری دےدی تھی، جس کے بعد ایک مہینے سے جاری سیاسی مذاکرات کا عمل اپنے اختتام کو پہنچ گیا،آئینی ترمیم کے مطابق نئے چیف جسٹس کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا،وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے فوری طور پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے۔

اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے،اس کے بعد ترمیم کی شق وار منظوری دی گئی، مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 4 آزاد اراکین نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا، عثمان علی، مبارک زیب خان، ظہورقریشی، اورنگزیب کھچی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری الیاس نے ترامیم کےحق میں ووٹ دیا۔

حکمران اتحاد کے 215 میں سے 213 ارکان نے ووٹ کیا، عادل بازئی کے علاوہ حکمران اتحاد کے تمام ایم این ایز نے ووٹ دیا، اجلاس کی صدارت کے باعث اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنا ووٹ نہیں دیا، جے یو آئی (ف) کے 8 ارکان نے ووٹ دیا،بعد ازاں اسپیکر سردارایاز صادق نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں 225 ووٹ دیے گئے۔

اس سے قبل سینیٹ میں 26ویں آئینی ترامیم کی تمام 22 کی 22 شقیں دوتہائی کی اکثریت سے منظور کر لی گئی تھیں، حکومت کو تمام شقوں کی منظوری میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو ئی جبکہ چیئرمین سینیٹ کا ووٹ حاصل نہیں ہوا، 26 ویں آئینی ترمیم کی پہلی شق کی منظوری میں 65 ووٹ حق میں پڑے جبکہ 4 مخالفت میں پڑے۔پی ٹی آئی کا کوئی ارکان منحرف نہیں ہوا۔

چاروں مخالف میں ووٹ دینے والے سینئٹرز نے واک آوٹ کر دیا، جے یوآئی کی جانب سے ترامیم سینیٹر کامران مرتضی نے پیش کیں، بی این پی کی سینیٹر قاسم رونجھو، سینیٹر نسیمہ احسان نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا، جے یوآئی کی ترامیم متفقہ طور منظورکرلی گئیں، پی ٹی آئی کا کوئی سینیٹر منحرف نا ہوا، پی ٹی آئی کے کسی رکن سینیٹ نے بل کی حمایت میں ووٹ نہیں ڈالا، جے یو آئی کی ترامیم کی پی ٹی آئی نے مخالفت نہ کی۔

آئینی ترمیمی بل کی شق وار منظوری کے دوران 26 مرتبہ چیئرمین سینیٹ نے سینیٹرز کو ووٹنگ کے لیے کرسیوں سے اٹھایا جبکہ 26 مرتبہ بٹھایا، پروفیسر ساجد میر ،محمد قاسم ووٹنگ پر نہ اٹھے صرف اپنا ہاتھ کھڑا کرتے رہے، رانا ثنااللہ اور اٹارنی جنرل بھی ووٹنگ کے دوران ایوان میں موجود رہے۔

آرٹیکل 38

آرٹیکل38میں ترمیم منظوری کیلئے سینٹ میں پیش کیا گیا، ترمیم جے یو آئی ایف کے کامران مرتضیٰ نے پیش کی، حکومت نے جے یو آئی ف کی ترمیم کی حمایت کی، آرٹیکل 38 کے پیراگراف ایف میں ترمیم کے مطابق سودی نظام کاخاتمہ جتناجلدی ممکن ہوکیاجائے گا، آرٹیکل 38میں ترمیم سینیٹ سے منظور کر لیا گیا۔

آرٹیکل 48

آرٹیکل 48میں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، وزیراعظم اورکابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانیوالی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کوئی ٹریبونل اورکوئی اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی، سینیٹ سے آرٹیکل 48میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔

آرٹیکل 81

آرٹیکل 81میں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، آرٹیکل 81میں آ رٹیکل 81میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل شامل کردیئے گئے، سینیٹ سے آرٹیکل 81 میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔

آرٹیکل 175 اے

آرٹیکل 175Aمیں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا گیا جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

آرٹیکل 177

آرٹیکل 177 بھی ترمیم کے لئے سینیٹ میں پیش کیا گیا، آرٹیکل177میں ترمیم کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا، آرٹیکل177میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کاجج بننے کیلئے ہائی کورٹ میں بطورجج 5 سال کام کرنے کی حدمقرر ہو گی، کسی بھی وکیل کا سپریم کورٹ جج بننے کیلئے بطور وکیل 15سال کی پریکٹس لازم ہوگی، آرٹیکل 177میں ترمیم بھی کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔

آرٹیکل179

آرٹیکل179 میں ترمیم سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، آرٹیکل179کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر تین سال کیلئے ہوگا، چیف جسٹس آف پاکستان 65سال کی عمرمیں ریٹائرڈ ہوں گے، آرٹیکل 179میں ترمیم بھی کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔

آرٹیکل184

آرٹیکل184 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا گیا، آرٹیکل 184کے تحت سپریم کورٹ کا ازخودنوٹس کا اختیار ختم ہو جائے گا، آرٹیکل 184کے تحت سپریم کورٹ دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورااز خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے گا، آرٹیکل 184 بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

آرٹیکل 186 اے

آرٹیکل 186 اے منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا گیا، ہائی کورٹ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 50ہز ار سے بڑھا کر 10لاکھ کر دی گئی، آرٹیکل 186میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

آرٹیکل187

آرٹیکل187 منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا گیا، آرٹیکل187کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروری کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائے گا، آرٹیکل 187 اضافی ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔

آ رٹیکل 191 اے 

آئین میں آ رٹیکل 191اے شامل کرنے کی ترمیم منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا گیا، آرٹیکل191کے تحت آئینی بنچز کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی، سپریم کورٹ میں ایک سے زیا دہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جا سکے گی، سپریم جوڈیشل کونسل آئینی بنچز کے ججز اور ان کی مدت کا تعین کرے گی، آئینی بنچز میں تمام صوبوں کے ججز کی مساوی نمائندگی ہو گی، اس شق کے تحت کوئی حکم سپریم کورٹ کے زیراختیار اوراستعمال کردہ کسی دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ منظور نہیں کیاجائے گا، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کاکوئی بنچ درج ذیل دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کرے گا۔

آئینی بنچ کم سے کم پانچ ججز سے کم ججز پر مشتمل ہوگا، سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سنیئر ججز آئینی بینچزکی تشکیل دیں گے، زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بنچز کو منتقل کیے جائیں گے، آرٹیکل 199اے میں ترمیم سینیٹ  سے منظور کر لیا گیا۔

آرٹیکل193

آرٹیکل193میں ترمیم منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا گیا، دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص ہائی کورٹ کاجج  نہیں بن سکتا، آئینی ترمیم میں ہائی کورٹ جج کیلئے40سال عمر، 10 سال تجربے کی حد مقرر کر دی گئی، آرٹیکل 193 میں ترمیم سینیٹ سے منظور ہو گئی۔

آرٹیکل 199

آرٹیکل 199میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا گیا، ہائی کورٹ دائر درخواست کے مندرجات سے باہر ازخود کوئی حکم یا ہدایت کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 199میں ترمیم سینیٹ سے منظور ہو گئی۔

آرٹیکل209

آرٹیکل209میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا گیا، آرٹیکل209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا، سپریم جوڈیشل کونسل 5ممبران پر مشتمل ہوگی،  چیف جسٹس آف پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے، سپریم کورٹ کے 2 سنیئر جج اور ہائی کورٹس کے 2 سنیئر ججز کونسل کا حصہ ہوں گے، آرٹیکل 209میں ترمیم سینیٹ سے منظور ہو گئی۔

آرٹیکل215

آرٹیکل215میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی، چیف الیکشن کمشنر اور ممبراپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور ممبر کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہوں گے، آرٹیکل 215میں ترمیم سینیٹ  سے منظور کر لیا گیا۔

آرٹیکل 229 اور 230

آرٹیکل 229 اور 230 میں جمیعت علمائے اسلام ف کی ترامیم منظور کر لی گئیں، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یا صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی قانون سازی پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے کی جائے گی۔

آرٹیکل255

آئین کے آرٹیکل255 میں ترمیم منظوری کیلئے سینیٹ میں پیش کیا گیا، کسی شخص کے سامنے حلف اٹھانا نا قابل عمل ہونے پر ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبائی سطح پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حلف لینے کے مجاز ہوں گے، آرٹیکل 255 میں ترمیم سینیٹ  سے منظور کر لیا گیا۔

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے حق میں 65 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ 4 نے مخالفت میں ووٹ کاسٹ کیا، چیئرمین سینٹ کی جانب سے لابیز کی تقسیم کا اعلان کیا، آئینی ترمیم کے حق میں ارکان کے لئے دائیں ہاتھ کی لابی مقرر کی گئی جبکہ مخالفت کے لئے بائیں جانب کی لابی مقرر کی گئی، لابی سے باہر دستخط کے لئے رجسٹر اور سینٹ عملہ موجود رہا، ارکان رجسٹر پر دستخط کر کے لابی میں داخل ہو ئے، تمام سینیٹرز اپنی اپنی لابیز میں چلے گئے، ایوان میں صرف رانا ثناءاللہ بیٹھے رئے۔

چیئرمین سینیٹ کا نتائج کا اعلان

چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد کہا کہ تقسیم کا رزلٹ موصول ہوگیا، تمام ممبران اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں، تمام دروازے کھول دیں، ووٹنگ کے رزلٹ کا اعلان کرنے جارہا ہوں، 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں 65 ووٹ لاسٹ ہوئے، 26 آئینی ترمیم کثرت رائے سے منظور ہو گئی۔

آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا مکمل بھی مکمل ہو گیا، ادھر وزیر داخلہ نے وزیراعظم سے رابطہ، وزیراعظم کو مبارکباد دی، سینیٹ میں آئینی ترمیم سے متعلق آگاہ کیا۔

چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترامیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا، ایوان میں مجوزہ آئینی ترمیمی بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا جس پر ووٹنگ کا عمل بھی مکمل کر لیا گیا، شقوں کی مرحلہ وار منظوری کا عمل کیا گیا جس پر اپوزیشن نے اعتراض اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ اٹارنی جنرل اور ثناءاللہ کو ایوان سے باہر بھیجا جائے، دوسری جانب حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ ایوان میں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے۔

ووٹنگ کے عمل کی شفافیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایوان کی گیسٹ گیلری کو خالی کرایا اور چیئرمین سینیٹ کی ہدایت پر ایوان کے دروازے بھی بند کر دیئے گئے، چیئرمین کے حکم پر تمام مہمانوں ایوان کے ہالز اور گیلریز سے اندر گئے۔

ایوان میں وقفہ سوالات اورمعمول کا ایجنڈا معطل کرنےکی تحریک بھی منظور کی گئی، معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک اسحاق ڈار نے پیش کی، سینیٹ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیمی بل پراپوزیشن سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی، 19ویں آئینی ترمیم عجلت میں منظورکی گئی جس نےآئین کےتوازن کوبگاڑدیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ14سال میں اعلیٰ عدلیہ میں ججزکی تقرری ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنی رہی، پاکستان بارکونسل سمیت وکلا کی تمام تنظیموں نےججزتقرری کےعمل پرنظرثانی کا مطالبہ کیا، آئین کےآرٹیکل175اے میں متعدد ترامیم کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے، کوشش کی ہےاعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کو شفاف بنایا جائے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان چیف جسٹس کی سربراہی میں8 ارکان پر مشتمل ہوگا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کےارکان میں4 سینئر ججزاور4پارلیمان کے ارکان  شامل ہوں گے۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا  کہ جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن میں تجویز کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ساتھ آئینی عدالت کے جج بھی اس کے رکن ہوں گے، کوشش کی ہے، 18ویں آئینی ترمیم کواس کی اصل روح کےمطابق بحال کیا جائے۔

مزیدخبریں