مانیٹری پالیسی کا اعلان۔ سٹیٹ بنک نےشرح سود میں 0.25 فیصد  بڑھادی

Sep 20, 2021 | 19:08:PM

(24نیوز)اسٹیٹ بینک نے آئندہ 2ماہ کے لئے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیاہے، بنیادی شرح سود میں 0.25 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق بنیادی شرح سود اب7.25 فیصد ہو گئی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق معاشی پالیسی توقع سے زیادہ بڑھ گئی ہے، اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں کے ہمراہ ملکی طلب کی بھرپور بحالی درآمدات میں تیزی اور جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس بات کے آثار بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان میں کووڈ کی تازہ ترین لہر قابو میں ہے، ویکسی نیشن میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے اور حکومت کو وبا کو مجموعی طور پر بخوبی قابو میں کر رکھا ہے تو معاشی بحالی وبا سے متعلق غیر یقینی کیفیت کا اتنا زیادہ شکار معلوم نہیں ہوتی۔ نتیجے کے طور پر بحالی کے اس زیادہ پختہ مرحلے پر نمو کی طوالت دینے، مہنگائی کی توقعات کو قابو میں رکھنے اور جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے کو آہستہ کرنے کے لیے مناسب پالیسیوں کو یقینی بنانے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔معاشی منظر نامے میں اس تبدیلی کے مطابق ایم پی سی کا یہ نقطہ نظر تھا کہ زری پالیسی کی ترجیح بھی یہ ہونی چاہیے کہ کووڈ دھچکے کے بعد بحالی کو تحریک دینے کے محور سے بتدریج ہٹا جائے اور اسے پائیدار بنایا جائے۔ جیسا کہ پچھلے زری پالیسی بیانات میں اشارہ دیا گیا تھا، ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ توازن قائم کرنے کا یہ عمل انجام دینے کا بہترین طریقہ گذشتہ 18 ماہ کے دوران دی گئی خاصی زری تحریک کو بتدریج گھٹا نا ہوگا۔ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ پچھلے چند ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے جاری کھاتے کے خسارے میں ردوبدل کا بوجھ بنیادی طور پر شرح مبادلہ پر پڑا ہے اور یہ مناسب ہوگا کہ ردوبدل کے دیگر طریقے بشمول شرح سود بھی اپنا موزوں کردار ادا کریں۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ زری پالیسی کا موقف ابھی تک نمو کی معاونت کے لئے موزوں ہے اور حقیقی شرح سود مستقبل بین بنیادوں پر منفی رہی ہے۔ آگے نظر رکھتے ہوئے ایم پی سی کو توقع ہے کہ غیر متوقع واقعات کی عدم موجودگی میں قلیل مدت میں زری پالیسی گنجائشی رہے گی، اور ممکنہ طور پر مالیاتی اعانت بتدریج سکڑے گی تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ معتدل مثبت حقیقی شرح سود کو حاصل کیا جا سکے۔ اس مالیاتی اعانت میں مزید ممکنہ کمی کی رفتار کو دیگر عوامل کے علاوہ طلب میں نمو کی مسلسل مضبوطی اور مالیاتی پالیسی کے موقف کے بارے میں نئی معلومات سے تقویت ملے گی۔ ایم پی سی نے فیصلے تک پہنچنے میں حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں کے اہم رجحانات اور امکانات، اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے امکانات کو مدنظر رکھا۔ 
سٹیٹ بنک کے مطابق جاری کھاتے کا خسارہ جولائی میں بڑھ کر 0.8 ارب ڈالر اور اگست میں 1.5 ارب ڈالر ہو گیا، جس سے شدید ملکی طلب اور اجناس کی بلند عالمی قیمتوں، دونوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ ترسیلاتِ زر اگرچہ مستحکم رہیں اور جولائی تا اگست کے دوران (سال بسال)10.4 فیصد بڑھیں جبکہ برآمدات نے بھی مناسب حد تک عمدہ کارکردگی (ماہانہ اوسط 2.3 ارب ڈالر) دکھائی، تاہم درآمدات نے انہیں بے اثر کر دیا۔ اس کے جواب میں روپے کی قدر ایم پی سی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے 4.1 فیصد گری ۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ حال میں دوسری بہت سی کرنسیوں کی قدر بھی گری ہے کیونکہ فیڈرل ریزرو کی طرف سے تخفیف کی توقعات سامنے آئی ہیں۔زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ شرحِ مبادلہ کے مارکیٹ پر مبنی لچکدار نظام نے جون 2019 میں اپنی آمد کے بعد سے اب تک عمدہ کارکردگی دکھائی ہے اور اس عرصے میں کووڈ کا دھچکا بھی شامل ہے۔ اس نظام نے جاری کھاتے میں مثبت تبدیلی کو ممکن بنایا ہے اور بیرونی دباو کے باوجود زرِ مبادلہ کے مجموعی اور خالص ذخائر میں انتہائی اہم اضافے کے لیے یہ معاون رہا ہے۔ اس نظام کے تحت اسٹیٹ بینک شرحِ مبادلہ میں کسی ملفوف رجحان کو روکتا نہیں ہے، اور وہ مداخلت اگر کرتا بھی ہے تو مارکیٹ کی بدنظمی کی صورت حال کو درست کرنے کی حد تک کرتا ہے۔ اس نظام کے آغاز سے اب تک روپے کی حرکت دونوں سمتوں میں منظم انداز میں ہوتی رہی ہے، اور اس کی قدر اب تک صرف 4.8فیصد گری ہے، جو کہ اسی عرصے کے دوران کئی دوسری ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی کرنسیوں کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ روپے کو جب سے فلوٹ کیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک کے مجموعی زرِ مبادلہ ذخائر تقریبا تین گنا بڑھ کر ریکارڈ 20 ارب ڈالر ہو چکے ہیں، جبکہ آخر جون 2019 سے آخر اگست 2021 تک خالص بین الاقوامی ذخائر میں تقریبا 16 ارب ڈالر اضافہ ہو چکا ہے۔زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ لچکدار شرحِ مبادلہ نے اگرچہ دھچکے کو جذب کرنے والے کا کردار بخوبی انجام دیاہے تاہم اس کے ساتھ دوسرے اقدامات کا ہونا بھی ضروری ہے جن میں مستحکم برآمدات، غیر ضروری درآمدات میں کمی لانے کے لیے تیر بہدف اقدامات، اور میکرو اکنامک پالیسی کا مناسب ماحول شامل ہیں تاکہ درآمدات میں نمو کو محدود کیا جائے۔ مالی سال 21 میں، سرکاری قرضوں کے محتاط انتظام نے کووڈ کے باوجود لگاتار دوسرے سال مالیاتی یکجائی کی سہولت فراہم کی جبکہ بنیادی خسارہ تقریبا فیصدی درجات کی کمی سے جی ڈی پی کے 1.4 فیصد رہ گیا۔ اس بہتری کی بڑی وجہ ٹیکس اور پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی کے محاصل میں مضبوط اضافے کے ساتھ غیر سودی اخراجات میں نمایاں کمی تھی۔ سال کے اختتام پر اخراجات کی مختص رقوم کے موسمی اجرا کے بعد مالی سال 21 کی آخری سہ ماہی میں مالیاتی تحریک میں مضبوطی سے اضافہ ہوا۔ مالی سال 22 کے پہلے دو مہینوں میں، ایف بی آر کے محاصل میں 40 فیصد (سال بسال)کا اضافہ ہوا جبکہ وفاقی پی ایس ڈی پی کی رقوم کا اجرا دوران مدت بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جو کہ پورے سال کے لیے ان کی میزانیہ رقم کے 44 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ضروری ہوگا کہ ٹیکس محاصل میں نمو کو تقویت دی جائے اور سال بھر اعدادوشمار کی محتاط نگرانی کی جائے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ بجٹ اپنی راہ پر گامزن ہے۔ مالیاتی موقف میں کوئی غیر متوقع فرق ملکی طلب، درآمدات اور مہنگائی کو مزید تقویت دے گا۔زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مالی سال 21 کے آغاز سے گنجائشی مالی حالات نے نمو کی بحالی میں اہم مدد فراہم کی ہے۔ پالیسی ریٹ میں تاریخی کمی اور کووڈ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے اعانتی پیکیج متعارف کرانے کے بعد، مالی سال 21 کے دوران صارفی قرضوں (بنیادی طور پر گاڑیوں اور ذاتی قرضوں)اور ان کے بعد معین سرمایہ کاری قرضوں میں وسیع البنیاد توسیع اور آخرا جاری سرمائے کے قرضوں میں اضافے کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضے میں 11 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ ایم پی سی نے محسوس کیا کہ زری حالات کو بتدریج معمول پر لانے کے اقدام کے سلسلے میں صارفی مالکاری کی کسی قدر میکرو پروڈنشل سختی بھی طلب میں نمو کو اعتدال پر رکھنے کے لیے موزوں ہو سکتی ہے۔ 
جون میں مہنگائی 9.7 فیصد (سال بسال)سے کم ہو کر جولائی اور اگست دونوں میں 8.4 فیصد رہ گئی۔ سازگار اساسی اثرات کے علاوہ، یہ کمی پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی اور پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں کمی کی وجہ سے توانائی کی سرکاری قیمتوں میں مسلسل کمی کی عکاسی کرتی ہے۔ اگست میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں قوزی (core)مہنگائی میں کمی آئی۔ تاہم جولائی میں 1.3 فیصد اور اگست میں 0.6 فیصد ماہ بہ ماہ اضافے کے ساتھ قیمتوں کی رفتار نسبتاً بلند ہے۔ مزید برآں، مضبوط بحالی کی وجہ سے گھرانوں اور کاروباری اداروں دونوں کی مہنگائی کی توقعات بڑھی ہیں اور اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مستقبل میں مہنگائی کے منظرنامے کا انحصار زیادہ تر ملکی طلب اور سرکاری قیمتوں، بالخصوص ایندھن اور بجلی، کے ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں پر ہوگا۔ ایم پی سی مہنگائی، مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی امکانات کو متاثر کرنے والے حالات کی بغور نگرانی کرتی رہے گی اور اس کے مطابق کارروائی کےلئے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں۔امریکی صدر اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقا ت میں سو گئے تھے ،نیتن یاہو کا تبصرہ۔۔ ویڈیو وائرل

مزیدخبریں