( امانت گشکوری)خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف کیس،عدالت نے سینیٹر مشتاق احمد خان،فرحت اللہ بابر،الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کر لیں،عدالت نے تمام فریقین کو اپنی گزارشات تحریری طور پر جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانسجیڈر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی ، جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد خان،پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر،الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلی گئیں ۔تمام فریقین کو اپنی گزارشات تحریری طور پر جمع کروانے کی ہدایت کردی گئی ۔
وکیل وزارت انسانی حقوق کے مطابق وزارت انسانی حقوق کا کام صرف عمل کرنا ہے،قائم مقام چیف جسٹس شرعی عدالت نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ خواجہ سراوں کے حقوق کا ہے، جس کے بھی جو حقوق ہیں وہ ملنے چاہیں،اقلیت کو تحفظ اور حق دینا ہی اصل مقصد ہے،کوئی آنکھیں بند کرلے تو وہ نابینا نہیں بن جائے گا۔
درخواست گزار اوریا مقبول جان نے کہا کہ بل بنتے وقت پوری اسمبلی نے بل کو منظور کیا تھا، فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ بل بنتے وقت میں اس سارے عمل میں شامل تھا، بل پر کیا اعتراضات تھے کیا بحث ہوئی عدالت کو بتانا چاہتا ہوں، دو بلوں کو ملا کر ایک بل بنایا گیا تھا۔درخواست گزار اوریا مقبول جان نے کہا کہ جنسی ماہر صرف دیکھ کر رائے دیتا ہے، ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بغیر جنس کا تعین نہیں ہو سکتا۔
سینٹر مشتاق احمد خان کے وکیل نے کہا کہ سینٹ میں نیا بل جمع کروایا گیا ہے، کسی کو اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے،وکیل نجی این جی او نے موقف اختیار کیا ہے کہ ٹرانسجینڈر قانون میں چیزوں کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے، ماہر ٹرانسجینڈر نے کہا کہ ٹرانسجینڈر دراصل ایک پیدائشی نقص ہے۔ببلی ملک نے کہا کہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی اور ہم ٹرانسجینڈر بالکل مختلف ہیں۔
ضرور پڑھیں : عمران خان تم سیاست ضرور کرو لیکن اسلامی تعلیمات کو مذاق نہ بنائو :جاوید لطیف
دوران سماعت ٹرانسجینڈر کی جانب سے سوشل میڈیا بحث پر پابندی کی استدعا کی گئی ۔خواجہ سرا نایاب علی نے استدعا کی کہ عدالت ٹرانسجینڈر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث پر پابندی عائد کرے، نمائندہ وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ خواجہ سراوں کے ایکٹ پر عملدرآمد سے ہم جنس پرستی کو فروغ نہیں ملتا، خواجہ سراوں کو نوکریاں دینے کا باقاعدہ طریقہ کار ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ سراوں کے کوٹے کے لیے حکومت کے پاس کیا طریقہ کار ہے؟ یہ نا ہو کہ نوکری حاصل کرنے کے لیے کوئی خواجہ سرا کا شناختی کارڈ بنوا لے،قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور نے مزید کہا کہ آج کل بہت سے افغانی بھی جعلی شناختی کارڈ بنوا رہے ہیں،عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔