(24نیوز)سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں کا کیس سے تعلق ختم ہوچکا۔لندن جائیدادوں کی ساری ذمہ داری سرینا عیسیٰ نے لے لی ہے۔مختلف بار کونسلز اور وفاقی حکومت کے دلائل مکمل ہوگئے۔سماعت کے آغاز پر جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سے معذرت بھی کی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی۔سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے گذشتہ روز پوچھے گئے سوالات کے تحریری جوابات جمع کرا دئیے ۔ جسٹس فائز عیسی نےکہا کہ وقت کی کمی کے باعث تحریری جواب جمع کرا دئیے ہیں۔ آپ نے بزرگ آدمی کو بہت مشکل کام پر لگا دیا ہے۔جسٹس منظور ملک نے جسٹس فائز عیسی اور ایڈشنل اٹارنی جنرل سے مسکراتے ہوئے سوال پوچھا کہ آپ میں سے زیادہ بوڑھا کون ہے؟جس پر فائز عیسی نے نے کہا کہ میں بوڑھا ہوں میرے بال سفید ہو گئے ہیں۔جسٹس منظور ملک نے جواب دیا کہ کچھ خدا کا خوف کریں بالوں سے نہ کوئی بوڑھا ہوتا ہے نہ سیانا۔
جسٹس منیب اختر نے کیس کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سے معذرت کرتے ہوئے کہا گزشتہ روز سخت ریمارکس سے اگر دل آزاری ہوئی تو معذرت خواہ ہوں۔سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے کہ ریفرنس ختم ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل غیر فعال ہو جاتی ہے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کونسل غیر فعال نہیں ہوتی ۔وکیل حامد خان نے کہا اہلیہ اور بچے زیر کفالت نہ ہوں تو کیس نہیں بن سکتا جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل کو سو موٹو لینے کا اختیار ہے۔جسٹس عمر عطابندیال نے ر یمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ ججز کے اہلخانہ سے متعلق آبزرویشن دے چکی ہے۔جوڈیشل کونسل کہیں سے ملنے والی معلومات پر بھی کارروائی کر سکتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیئے کہ سرینا عیسیٰ کو فریق نہ ہوتے ہوئے بھی سنا گیا اور بھرپور موقع دیا۔سرینا عیسیٰ بولیں خوش قسمتی سے یہ کرپشن کا کیس نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنے کہا بنچ میں موجود دو مجاہدین کا مشکور ہوں جنہوں نے برا وقت دیکھا۔جسٹس مقبول باقر پر فائرنگ ہوئی اور جسٹس سجاد علی شاہ کا بیٹا اغواء ہوا۔۔ مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔