شہبازشریف ضمانت کیس۔۔ تحریری حکم آنے تک اندازےنہ لگا یا کریں۔ لاہور ہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت کے کیس میں ریمارکس دئیے ہیں کہ جب تک تحریری حکم نہیں آتا کوئی اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔بعد ازاں عدالت نے لیگی صدر کی درخواست ضمانت پر سماعت کل صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کردی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر کی سربراہی میں جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی ضمانت کے کیس کی سماعت کی۔ شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نعدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری 27 سالہ وکالت میں ایسا نہیں ہوا کہ تین دن بعد فیصلہ بدلا ہو، اس پر عدالت نے کہا کہ کبھی بھی اپنے سائل کو مت بتائیں کہ جب تک آپ فیصلہ دیکھ نہ لیں۔
اعظم نذیر نے کہا کہ عدالت نے ضمانت منظور کرلی لیکن فیصلہ بدل دیا گیا، اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک تحریری حکم نہیں آتا کوئی اندازہ نہیں لگانا چاہیے، یہ آپ کے لئے سبق ہے۔عدالتی ریمارکس پر اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ ہم تو روز ہی یہاں سے سیکھ رہے ہیں۔ عدالت دونوں فیصلوں پر غور کرے،ڈر ہےکہ کہیں کیس ازسرنو سماعت پر نہ چلا جائے۔
عدالت نے اعظم نذیر سے مکالمہ کیا کہ اگر فیصلہ دیکھیں گے تو معاملے کی گہرائی نہیں سمجھ پائیں گے، ہمیں فیصلہ دیکھنا ہے مگر انہوں نے جو وجوہات لکھیں وہ بھی تو واضح ہوں۔عدالت کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے کیس کے تمام حقائق کو جاننا ضروی ہے، ہم اس کے بعد ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ضمانت ہونی ہے یا نہیں۔
نیب پراسیکیوٹرنےدلائل دئیے کہ شہباز شریف نے بے نامی دار جائیدادیں بنائیں۔سلمان شہباز اور اہلخانہ شہباز شریف کے بے نامی دار تھے۔جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیابے نامی کس طرح سے کہتے ہیں ؟ امجدپرویزایڈووکیٹ نےدلائل دئیے کہ شہبازشریف کےتمام اثاثےڈیکلیئر ہیں مگرنیب یہ نہیں مانتا ۔شہباز شریف پر 27 کروڑ کے اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو دلائل کیلئے طلب کرلیا۔
واضح رہےکہ شہباز شریف کی ضمانت کے کیس میں جسٹس اسجد جاوید گھرال کے اختلافی نوٹ کی بنا پر چیف جسٹس قاسم خان نے فل بینچ تشکیل دیا تھا۔