جماعت اسلامی ! نا انقلابی نا انتخابی(پہلا حصہ)
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
جماعت اسلامی ایک کامیاب انتخابی سیاسی جماعت کیوں نہ بن سکی ؟ کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں میں سیاسی انداز میں کوئی پارٹی منظم اور جمہوریت کی اصل روح کے مطابق اپنی تنظیم سازی میں موجود ہے تو وہ جماعت اسلامی ہی ہے ، یہ وہ واحد جماعت ہے جو اپنے ساتھ منسلک افراد کی سیاسی تربیت نظریاتی بنیادوں پر تیاری مذہبی اسلامی عقیدے کے ساتھ کراتی ہے، جماعت اسلامی میں رکنیت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا دیگر جماعتوں میں، اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور اس سے جماعت اسلامی کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوتا ہے؟ یہ سب اس بلاگ میں اس صفحے پر یا آنے والے بلاگ میں ذیر بحث لایا جائے گا یہ بلاگ کا ایک سلسلہ ہے جو اس بات کا احاطہ کرئے گا کہ جماعت اسلامی منظم اور متحرک ہونے کے باوجود ایک انتخابی جماعت کیوں نا بن سکی ؟ وہ کیا عوامل ہیں کہ جماعت اسلامی 1958 سے لیکر آج تک کوئی بڑی منتخب سیاسی قوت نہیں بن سکی ، کچھ افراد میری اس بات سے اختلاف بھی کریں گے اور کہیں گے کہ جماعت نے خیبر پختونخواہ یا کراچی کی حد تک مقامی حکومتیں بنائیں یا اتحادی حکومتوں کا حصہ رہی یہ ٹھیک ہے لیکن میں تو اس جماعت کے منظم ہونے کے باوجود انفرادی طور پر کامیاب نا ہونے کو یہاں موضوع بحث لانا چاہتا ہوں میری یہ خواہش بھی ہوگی کہ جماعت اسلامی سے کوئی دوست اس حوالے سے میری رائے سے اختلاف کرئے اور لکھے تاکہ میں بھی اپنے خیالات کو درست کرلوں ۔
جماعت اسلامی کا قیام اور بنیادی ڈھانچہ اس جماعت کی بنیاد سال 1941 تاج برطانیہ کے ہندوستان میں شہر لاہور میں رکھی گئی اس جماعت کا مقصد ہرگز ہرگز سیاسی نہیں تھا بلکہ یہ ایک اسلامی احیاء کی جماعت تھی مولانا مودودیؒ جو پہلے جمیعت علماءِ ہند کے ساتھ وابستہ رہے تھے اور اس جماعت کے کانگرس کے ساتھ الحاق کے بعد الگ ہوئے تھے اس علیحدگی کے دور میں اُنہوں نے دنیا بھر میں کام کرنے والی اسلامی تحریکات کا بغور مطالعہ کیا وہ ذاتی طور پر مصر میں 1923 میں بننے والی تنظیم اخوان المسلمون سے متاثر تھے اس ٹھریک کے بانی شیخ حسن البناءؒ تھے جنہوں نے اسلام کے بنیادی عقائد کی درستگی اور احیاء کے لیے یہ جماعت بنائی (یہ جماعت بھی بعد میں سیاسی ہوگئی اور حسن البناء کو شہید کردیا گیا اس لیے یہ یہاں موضوع نہیں ) مولانا مودودیؒ جو برصغیر کی سیاسی حالت اور حلافت ترکیہ کو بہت قریب سے دیکھ پڑھ چکے تھے اس لیے وہ سیاست سے کچھ حائف تھے انہوں نے اس نظام سیاست یعنی جمہوریت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا اس لیے انہوں نے اپنی اسلامی ہمہ گیر فکریت کے تحت ایک ایسی ہی جماعت بنائی جو سیاسی نہیں ہمہ گیر اسلامی پیغام کی پیامبر ہو اس جماعت کا آغاز صرف 75 افراد سے ہوا جنہوں نے اپنی زندگیاں صرف اور صرف اسلام کے لیے وقف کی ۔
ضرورپڑھیں:ڈاکٹر اسرار احمد کی جماعت اسلامی کے لیے بڑی پیش گوئی ، جو سچ ثابت ہوئی
یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں طویل ترین ملوکیت (بادشاہی ، انگریزی ) کے بعد جمہوریت اپنے پاوں پھیلا رہی تھی 1935 میں انگریز راج نے پہلے پارلیمانی انتخابات کا فیصلہ کیا جس کے تحت 1937 کو انتخابات کا انعقاد ہوا اور یوں رائے دہی کے نئے قانون کے تحت کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی جمیعت علماء ہند اس میں کانگریس کے ساتھ تھی ، وزارتوں کے اس دور میں ہندوں نے ہزاروں سال کی مسلم اور چند سال کی انگریز غلامی کے بعد اسے اپنے لیے بڑی کامیابی قرار دیا جواہر لال نہرو نے برملا کہا کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہیں ایک ملکہ برطانیہ اور دوسری قوت آل انڈیا کانگریس، اس سارے عمل کو مولانا مودودی نے بہت نزدیک سے دیکھا 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے باعث حکومت انگلیشیہ اور کانگریس میں اختلافات شروع ہوئے جو بڑھتے بڑھتے کانگریسی وزارتوں کے استعفوں کا باعث بنے، مولانا مودودی اس سارے عمل کو بہت نزدیک سے دیکھ رہے تھے وہ اس راز کو پاگئے تھے کہ جمہوریت کا جو بیج ہندوستان میں بویا جارہا ہے اس کے تحت مسلمان کبھی دوبارہ برسراقتدار نہیں آئیں گے کیونکہ اس نظام کے تحت ہندو ایک پر چار کی برتری رکھتے ہیں دو سال کی مسلسل سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان میں اقتدار کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے درست عقائد پر جمع کیا جائے ، 1941 میں مولانا مودودی نے جمہوری بیزاریت پر مبنی اپنے خیالات کے تحت لاہور مین جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی 26 اگست 1941 میں پورے ہندوستان سے 75 لوگ اس پہلے اجلاس شریک ہوئے اور یوں جمہوری بیزاری کے ساتھ جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی، جماعت اسلامی کے جمہوری نظریات کی ایک جھلک مین نے پیش کردی یوں یہ جماعت قیام پاکستان کے اُس تصور جو حضرت قائد اعظمؒ کی سیاسی جدوجہد کا منبہ تھا اُس سے بلکل مختلف تھا اس الگ خیالی کو چند افراد قیام پاکستان کی دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں ،اس سلسلے میں جو سب سے بڑی دلیل وہ دیتے ہیں وہ مولانا کے ایک کتابچے سیاسی کشمکش سے ایک اقتباس ہے جس میں مولانا نے لکھا
"پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی:
یہ ایک نظریاتی مسئلہ ہے کیونکہ مولانا مودودیؒ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم نہیں مسلمانوں کی تقسیم ہوگی، مسلم اکثریت والے علاقے الگ ہوئے تو باقی بچ جانے والے اقلیتی علاقوں کے مسلمان بے یارو مددگار ہوجائیں گے ۔
ہفت روزہ کوثر کے 16 نومبر 1947ء شائع شدہ میں تحریر کرتے ہیں کہ " ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا اجتماعی نظام جن اصولوں پر قائم ہو رہا ہے ان اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم کسی قدر و قیمت کا مستحق نہیں سمجھتے"
روزنامہ انقلاب شائع شدہ 9 اپریل 1948 میں لکھتے ہیں کہ " ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے"
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : (یہ موضوع بہت وسیع و دبیز ہے جس کا احاطہ اس مختصر بلاگ میں کرنا نا ممکن ہے اس لیے آگے بھی اسی موضوع پر مزید بلاگ تحریر کیے جائیں گے )
ضروری نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر