غزہ سے اظہارِ یکجہتی: جذبات نہیں، حکمت، نظم اور عمل کی ضرورت ہے

از:احمد منصور

Apr 21, 2025 | 10:22:AM

غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کی مذمت صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے با ضمیر انسان کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، مغرب کے کئی ممالک اور عوامی حلقوں نے ایسی جرات مندانہ پوزیشن لی ہے جو بعض مسلمان ریاستوں کے لیے بھی باعثِ تقلید ہے۔ سڑکوں پر لاکھوں افراد کی شرکت، حکومتی دباؤ کے باوجود اسرائیل مخالف مظاہرے، اور عوامی حلقوں میں فلسطینیوں کے حق میں آوازیں—یہ سب مغرب کی وہ تصویر پیش کر رہے ہیں جسے ہم اکثر یک طرفہ دیکھتے آئے ہیں۔

پاکستان میں بھی غزہ کے مظلوموں کے حق میں جذبات قابلِ فہم ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ان جذبات کو ہم کس سمت لے جا رہے ہیں؟ کیا کے ایف سی جیسے کاروباری مراکز پر حملوں سے فلسطینیوں کی مدد ہو رہی ہے؟ کیا شیشے توڑنے، املاک جلانے، اور اپنے ہی شہریوں کو خوف زدہ کرنے سے عالمی رائے عامہ ہماری طرف مائل ہو گی؟

 یہ بھی پڑھیں:یمن کے دارالحکومت صنعا میں امریکی فضائی حملے، 12 افراد جاں بحق، 30 زخمی

یہ سچ ہے کہ کئی بین الاقوامی کمپنیوں کے پس منظر میں مغرب یا یہودی سرمائے کا عمل دخل ہے، مگر کیا ان کا مقابلہ صرف غصے سے ممکن ہے؟ اگر ہم واقعی ان کے غلبے کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی کامیابی کے اسباب کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ ان کمپنیوں نے معیار، شفافیت، کام کے نظام، قیمت و مقدار کے توازن اور ملازمین کے حقوق کا خیال رکھا۔ ان کے یہاں ملاوٹ نہیں، ناانصافی نہیں، بدعنوانی نہیں۔ وہ اعتماد بیچتے ہیں، اور ہم وہی خریدتے ہیں—اپنی خوشی سے، کسی جبر کے بغیر۔

غیر ملکی مصنوعات ہمیں بندوق کی نوک پر بیچی نہیں جاتیں، ہم خود انہیں اپنی مقامی اشیاء پر ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ہمیں اس رجحان کو بدلنا ہے تو ہمیں صرف بائیکاٹ کے نعرے نہیں لگانے، بلکہ معیار میں ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ اپنی مصنوعات میں بہتری لانی ہے، اعتماد بحال کرنا ہے۔

احتجاج ضرور کریں، مگر پرامن انداز میں۔ ایسی ریلیاں نکالیں جو باوقار ہوں، جو دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستانی قوم ظلم کے خلاف ہے، مگر خود قانون کی پابند بھی ہے۔ اصل مقابلہ علم، ٹیکنالوجی، تحقیق، کاروبار، اور اخلاقیات کے میدان میں ہے۔ اگر ہم نے اپنی یونیورسٹیز، اداروں، صنعتوں، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی، اگر ہم نے دنیا کو دکھا دیا کہ ہم خود کفیل، منصف اور باصلاحیت قوم ہیں—تو ہماری آواز خود بخود سنی جائے گی۔

 مزید پڑھیں:فلسطین کے حق میں مظاہروں پر امریکا نے 1500 طلبہ کے ویزے منسوخ کردیے 

ساتھ ہی ہمیں آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ ہمیں ان عناصر سے ہوشیار رہنا ہو گا جو ہمارے جذبات کو استعمال کر کے اپنی سیاسی یا مذہبی دکان چمکانا چاہتے ہیں۔ غزہ، فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل صرف چند جماعتوں یا گروہوں کا ایجنڈا نہیں، بلکہ پوری قوم کی آواز ہونے چاہییں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ان مظاہروں میں کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا جھنڈا نہ ہو، صرف پاکستان کا پرچم ہو—جو مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے مظاہرے کسی منظم، طے شدہ مقام پر ہوں، قانون کے دائرے میں ہوں، تاکہ ملک کے نظامِ زندگی کو مفلوج نہ کیا جائے، اور ہم اپنا ہی نقصان نہ کر بیٹھیں۔

حال ہی میں کے ایف سی راولپنڈی پر حملے میں ملوث افراد کی گفتگو سامنے آئی، جسے سن کر شدید افسوس اور تشویش پیدا ہوئی۔ ان کا مقصد غزہ سے اظہار یکجہتی نہیں، بلکہ صرف ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونا تھا۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو نہ صرف احتجاج کے تقدس کو پامال کرتی ہے بلکہ قومی سلامتی اور امن و امان کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ مزید تشویش ناک امر یہ ہے کہ بعض اوقات کاروباری رقابتیں یا ذاتی دشمنیاں بھی ایسی نفرت انگیز مہمات کو ہوا دیتی ہیں۔ دوسری جانب، تحریک لبیک نے یکم مئی کو ایک بار پھر فیض آباد میں احتجاجی مارچ کا اعلان کیا ہے—ایسا مقام جو پہلے ہی حساس تصور کیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہاں چند سو افراد بھی نظامِ زندگی مفلوج کر دیتے ہیں، تو جب ہزاروں افراد جمع ہوں گے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ یکجہتی ہے یا طاقت کا مظاہرہ؟ ایسا طرزِ عمل کہیںغزہ کے کاز سے زیادہ اپنی سیاسی قوت منوانے کی کوشش تو نہیں؟

اور سب سے اہم بات: ہمیں اپنی ریاست اور اپنی افواج کو ہر حال میں مضبوط رکھنا ہے۔ کیونکہ اگر ہم اندر سے کمزور ہو گئے تو ہم صرف غزہ کے لیے آنسو بہانے والے ہی نہیں رہیں گے، بلکہ خود غزہ جیسی صورتحال کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم احتجاج سے آگے بڑھیں—ترقی کی طرف، خود انحصاری کی طرف، اور عالمی قیادت کی طرف۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں