عمران خان کی چال  اور صدارتی محل کے بھوت

 عامر رضا خان 

Aug 21, 2023 | 14:42:PM

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی اسیری کے باوجود خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور یہ وہ سحر ہے جو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے ، اٹک جیل سے کوئی اطلاع آئے تو "خبر" نا آئے تو خبر ،کوئی ملنے جائے تو خبر نا ملنے جائے تو خبر ایک اندازے کے مطابق اب تک 20 ہزار وی لاگ صرف عمران خان کی اسیری پر "بکے" جا چکے ہیں ہر کوئی اپنا اپنا خیال لیکر اسے سچ کا پہناوا پہنا کر پیش کرتا ہے خبر باؤنس ہوتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے میری خبر ٹھیک ہے لیکن کوئی کہاں مانتا ہے ۔


عمران خان کی اسیری میراآج کا موضوع ہی نہیں ہے ، اتوار کے روز پاکستان کے صدر مملکت جناب عارف علوی نے اپنے ٹوئیٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ 
"میں اللّٰہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ اللہ سب جانتا ہے، وہ انشاء اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے"
میں نے ایک بار سے زائد بار اس ٹوئیٹ کو پڑھا بار بار ایک ایک لفظ پر غور کیا تو مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کے اس ٹوئیٹ کا مخاطب ہم عوام، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ، سیاستدان ہرگز ہرگز نہیں ہیں اس ٹوئیٹ  کے ذریعے کھُلے بندوں اس بات کا اعلان کیا جارہا ہے کہ آرمی ایکٹ ایک متنازعہ ایکٹ ہے جسے صدر پاکستان نے یکسر مسترد کیا اور اس ایکٹ کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل قریب میں عمران خان کو سزا دی جائے گی ، ایک بات پھر یہ ٹوئیٹ پڑھیں ایک ایک لفظ پر غور کریں یہ سانحہ 9 مئی کی طرح کے پلان کی طرح ہے جس میں یہ طے شدہ امر لگتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور موجودہ صدر عارف علوی میں یہ طے تھا کہ عارف علوی ہر اس قانون کو متنازعہ بنائیں گے جس کا براہ راست نقصان چیئرمین تحریک انصاف کو ہورہا ہو ۔

ضرور پڑھیں:عمران خان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈاکومینٹری
اس ٹوئیٹ میں واضع اشارہ موجود ہے کہ " صدر پاکستان اُن افراد سے معافی مانگتے ہیں جنہیں اس ایکٹ کے تحت سزا ہونے والی ہے ظاہر ہے کہ اس ایکٹ کو منظور ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وہ لیڈران جنہیں ابھی تک ہاتھ نہیں لگایا گیا تھا وہ بھی قانون کے شکنجے میں آگئے ، صدر صاحب شائد اسی انتظار میں تھے اسی لیے انہوں نے خود کو اس قانون سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا گزشتہ ایک ماہ سے اس قانون کے حوالے سے ایوان بالا اور ایوان زیریں قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحث ہوئی اس کے باوجود فلم کے مزاحیہ کردار کی طرح ساری لڑائی میں مار پر چکنے کے بعد اپنی انٹری ماری اور ہاتھ اچکا کر کہہ دیا کہ میں نے تو دستخط ہی نہیں کیے ۔


اس سونے پر سہاگا یہ کہہ کر پھیر دیا کہ میں نے اپنے سٹاف سے کہا تھا کہ اس ایکٹ کو واپس بجھوایا جائے لیکن مجھے دھوکہ دیا گیا کوئی ان دندان ساز صاحب سے پوچھے کہ آپ نے واپس بجھوانے والےاحکامات کسے دئیے تھے؟ کون تھا جس نے آپ کی حکم عدولی کی؟ کیا آپ نے پیغام زبانی دیا تھا یا تحریری طور پر کوئی ثبوت کوئی گواہ کچھ تو ہو ؟صرف ایک تحریر ٹوئیٹ کرنے سے آپ اس سارے نظام سے بری الزمہ نہیں ہوسکتے،آپ کی وضاحت کرنا خان کی ایک چال تھی لیکن آپ نے اس پر جو ری ایکیشن دیا وہ بہت تاخیری تھا آپ چاہتے تھے کہ ’سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے‘ اب تک آپ ایک پلان کے تحت ہی عمل کر رہے ہیں لیکن اس بار آپ نے چونا کسی اور کو نہیں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو لگایا ہے، اگر آپ اس اہم ترین قانون سازی کے حوالے سے اپنا نوٹ تحریر کراتے اور پھر اسے واپس بجھواتے تو پلان کے مطابق کام ہوتا لیکن آپ نے سرکس کے جوکر کیطرح ری ایکٹ کیا اور سانپ گزرنے کے بعد لکیر کو پیٹا جس کا اب کوئی فائدہ نہیں ۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے لیے بڑا ریلیف ، نواز شریف کو بڑی شکست 
وزارت قانون نے آپ کے ٹوئیٹ کا جو جواب دیا ہے وہ اس سارے معاملے کو سمجھانے کے لیے کافی ہے ، قانون بن چکا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی اس ایکٹ کے تحت گرفتار ہوچکے لیکن صدر پاکستان ایک "میسنے" کی طرح اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اُن کا کہا مانا نہیں گیا کون ہیں وہ "بھوت" جو صدارتی محل میں موجود ہیں لیکن عارف علوی کو نظر نہیں آرہے ،یہ بھوت صدر پاکستان سے بھی زیادہ طاقتور ہیں جو نہ نظر آرہے ہیں اور نہ اُن کے نام سامنے لائے جارہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان کی چال کے مطابق عمل تو کیا گیا ہے لیکن صدر پاکستان نے اپنی بھی چال چلی ہے۔

ضروری نوٹ:ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

مزیدخبریں