3 قیدیوں کو سزائے موت۔۔چند گھنٹے پہلے اطلاع۔۔انسانی حقوق تنظیموں کی مذمت

Dec 21, 2021 | 18:38:PM

(مانیٹرنگ ڈیسک)جاپان میں گزشتہ دو برسوں کے دوران پہلی بار سزائے موت کے تین قیدیوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ جاپان ان چند صنعتی ممالک میں سے ایک ہے جہاں اب بھی سزائے موت پر عمل ہوتا ہے۔قیدیوں کو عموماً سزائے موت پر عمل درآمد سے چند گھنٹے پہلے ہی بتایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں کی جانب سےاس طرز عمل کی مذمت۔

العریبہ چینل کی ویب رپورٹ کے مطابق جاپان کے خبر رساں ادارے کیوڈو نے اطلاع دی ہے کہ 20 دسمبر منگل کے روز ملک میں موت کی سزا پانے والے تین قیدیوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ ایجنسی کے مطابق دسمبر  2019 کے بعد ملک میں موت کی سزا پر پہلی بار عمل ہوا ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں اقتدار سنبھالنے والے وزیر اعظم فومیو کشیدا کی حکومت میں بھی یہ پہلی پھانسیاں ہیں۔دنیا میں امریکا کے علاوہ جاپان بھی ان بہت ہی کم صنعتی معیشتوں اور امیر جمہوری ملکوں میں سے ایک ہے جہاں اب بھی سزائے موت پر عمل ہوتا ہے۔ جاپان کی جیلوں میں اس وقت 100 سے زیادہ سزائے موت کے قیدی ہیں اور اس سے قبل ملک میں آخری پھانسی 26 دسمبر 2019 کو دی گئی تھی۔

نیوز ایجنسی کیوڈو کے مطابق جن تین افراد کو منگل کے روز پھانسی دی گئی ہے ان میں سے ایک 65 برس کا وہ آدمی بھی تھا، جسے اپنے رشتے داروں کو چاقوؤں سے حملہ کر کے قتل کرنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کے باوجودعوام میں سزائے موت کے لئے حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ جاپان میں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے اور عموماً سزائے موت پر عمل درآمد سے چند گھنٹے پہلے ہی انہیں اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔چونکہ اس طرز عمل سے ایسے قیدی شدید دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اس لیے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اس طرز عمل کی مذمت کرتی رہی ہیں۔حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں تقریباً 483 افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی۔ ایمنسٹی کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران ایک برس میں موت کی سزاؤں پر یہ سب سے کم عمل تھا۔تاہم تنظیم کے مطابق اس دوران مصر میں موت کی سزا دینے کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا جبکہ بھارت، عمان، قطر اور تائیوان نے بھی موت کی سزاؤں پر دوبارہ عمل شروع کر دیا۔چین، شمالی کوریا، شام اور ویتنام جیسے ممالک میں موت کی سزا کو خفیہ سرکاری معلومات کے درجے میں رکھا جا تا ہے اسی لیے ان ممالک میں ہونے والی موت کی سزاؤں کے اعداد و شمار کا کچھ  پتہ نہیں رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’سونا کتنا سونا ہے‘۔۔گووندہ کی آج58ویں سالگرہ

مزیدخبریں