عمران خان یہ بات بھول گئے کہ جب کوئی بت تراشا جاتا ہے تو تراشنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ اس بت کو گرانے کے لیے کس نازک جگہ پر ہلکی سے چوٹ لگے گی تو پتھر اور لوہے سے بنا بت ریت کےگھروندے کی مانند نیچے گر جائے گا اسی نازک حصے پر ضرب لگادی گئی ہے۔
ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے کہ جب سے چیئرمین تحریک انصاف کی مبینہ طور پر عائلہ ملک کے ساتھ ایک آڈیو منظر عام پر آئی ہے ہر کوئی ایک سے بڑھ کر ایک اس کوشش میں ہے کہ اس آڈیو کو یا تو جعلی ثابت کر دے یا اصلی۔ کہاں سے کہاں بات پہنچائی جا رہی ہے تنگ آگیا ہوں۔
آج کی ہی سُن لیں صبح بنک آف پنجاب میں جانے کا اتفاق ہوا مخلوط ملازمین یعنی مرد وخواتین کی حامل اس برانچ میں ایک ہی موضوع زیر بحث تھا کہ آڈیو جعلی ہے یا اصلی؟ نہ کسی کے چہرے پہ شرم تھی نہ ملال جو جعلی کہہ رہے تھے یا تھی انہوں نے بھی وہ بیہودہ اور لچر گفتگو سُن رکھی تھی اور جو اسے اصلی مانتے تھے انہوں نے بھی یعنی سب نے سُن رکھی تھی، ان میں سے جو صاحب زیادہ خوش لباس اور افسر معلوم ہورہے تھے وہ زیادہ اچھل اچھل کو آڈیو جعلی ثابت کرنے کے درپے تھے ،انہوں نے اپنے کولیگ سے کہا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی جعلی آڈیو آچکی ہیں، ٹیکنالوجی بہت ترقی کرچکی ہے ،میں کیونکہ اس بحث کا حصہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود میں ہنس پڑا ،مینجر صاحب چونکے اور پوچھا آپ ٹیکنالوجی کے نام سے کیوں ہنسے تو میں نے اُن سے کہا سر یہ ٹیکنالوجی تو نئی نہیں ہمارے بچپن میں ہی آگئی تھی آپ کو وہ طوطا تو یاد ہوگا جس کے سامنے جو بھی آواز نکالی جائے اسے وہ اپنی آواز میں اس کو بول دیا کرتا تھا یہ طوطا بھی ایسی ہی ٹیکنالوجی کی ابتداء ہے یہ آج بھی چھوٹے بچوں کا پسندیدہ کھلونا ہے لیکن ترقی کرتے کرتے اب یہ شخسیات کی آواز میں ہی بول دیتا ہے لیکن جہاں اس بولنے والے طوطے نے ترقی کی ہے وہیں ان آوازوں کو صحیح یا غلط ثابت کرنے والوں نے بھی ترقی کرلی ہے ہر آواز اور ہر ویڈیو کلپ کا فرانزک کرنا آسان ہوگیا ہے ۔
ضرور پڑھیں :خبردار ، ہوشیار!!آڈیوز کی ویڈیوز بھی موجود ہیں
آجکل ٹوئٹر پر ایک ٹرینڈ بنا ہوا ہے کہ مورگن فری مین امریکی اداکار کی آواز کو آپ اپنی آواز بنا سکتے ہیں جو آپ بولیں گے وہی آواز گھوم کر مورگن فری مین آپ کے کمپیوٹر یا موبائل سے بول دے گا اس کی بھی ابتدائی شکل ایک ایپ " ٹاکنگ ٹام " کی صورت میں آج بھی موجود ہے جس میں آپ جو کہیں بلی اسی آواز کو دہرا دیتی ہے لیکن مسئلہ یہاں یہ نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی کتنی ترقی کرگئی ہے مسئلہ یہ ہے کہ جس مرد و خاتون کی یہ آڈیو ہے اگر یہ اُن کی نہیں ہے تو پھروہ اس کی تردید کیوں نہیں کر رہے ،ظاہر ہے جنہوں نے بھی یہ آڈیو وائرل کی ہیں اُن کے پاس ان کی مکمل فرانزک رپورٹ موجود ہے جو کیس کی صورت میں پیش کردی جائے گی ۔
انسان حیوان ناطق یعنی بولنے والا جاندار ہے باقی تمام جاندار آوازیں تو نکال سکتے ہیں بولنے اور سمجھنے کی اُس صلاحیت کے حامل نہیں ہیں جو اللہ پاک نے انسان کو عطاء کی ہیں ، اس عطاء کو اگر غلط کاموں کے لیے استعمال کیا جائے گا تو یہ آوازیں گھوم کر واپس آجائیں گی اور یہی کچھ ان آڈیوز میں ہوا اخلاق باختہ تھکی ہوئی غلیظ الفاظ سے بھرپور ان آڈیوز کو سننے والا کوئی بھی شخص بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ اصلی ہے یا جھوٹی کیونکہ جو بھی انسان بولتا ہے یا گفتگو کرتا ہے تو اس کے لیے ایک خاص قسم کے صوتی اثرات کو ہوا میں پھیلاتا ہے جسے آواز کی قوت سے منسوب کیا جاتا ہے ہر انسان کے بولنے میں ایک خاص قسم کی انرجی جنم لیتی ہے آپ مورگن فری مین کی آواز تو لے سکتے ہیں اُس کی انرجی نہیں لے سکتے اس لیے آواز میں کچھ فرق رہ جاتا ہے آپ براہ راست بات کریں یا فون پر آواز کے بولے جانے پر وہ انرجی بتاتی ہے کہ یہ کس کی آواز ہے ۔
بنک سے کام ختم کرکے میں واپس آفس آیا تو ٹوئیٹر پر ٹرینڈبنا ہوا تھا #Morganfreeman #fakeAudio
یہ ہیش ٹیگ جن کی جانب سے بنائے جارہے تھے وہ اس کے لیے طوطے والے کھلونے اور ٹاکنگ ٹام والے جدید سافٹ وئیر کا سہارا لے رہے تھے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوسکتی ، ریحام خان کی کتاب کے اقتباسات کیا کسی کے کردار کی گواہی نہیں ہیں ریحام خان کی رسائی تو جناب چیئرمین تحریک انصاف کے بیڈروم تک رہی ہے ج تک اُس کے کسی ایک بیان یا اقتباس کی تردید نہیں آئی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مبینہ بیٹی کا کیس بھی عدالت میں ذیر سماعت ہے اور اب یہ آڈیوز لیک کا سلسلہ ہے ، وافقان احوال کا کہنا ہے کہ میانوالی میں کالاباغ کے مقام پر جو مبینہ" شکار" کھیلا گیا میوزک کے ساتھ اس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں اور بنی گالا کے قصے اور روایات کی بھی آڈیو ویڈیوز موجود ہیں جو انتہائی بیہودہ اور لچر ہیں جن کا ذکر بھی نہیں کیا جاسکتا اگر ان کو جاری کردیا گیا تو چند افراد کے لیے دیومالائی حثیت رکھنے والے نام نہاد صادق و امین کا رہا سہا بت بھی پاش پاش ہوجائے گا اور اس بات کا ادراک اب عمران خان کو بھی ہونے لگا ہے گئے برسوں کی یہ آڈیو ویڈیوز کا خوف دن رات اُن کا پیچھا کر رہا ہے اب ذرا یہ بھی جانئیے کہ اس خوف کے سائے کچھ نئے نہیں ہیں انہیں اپنے دور اقتدار میں ہی معلوم تھا کہ اُن کی تمام حرکات و سکنات کو مسلسل مانیٹر کیا جاتا ہے اسی لیے انہوں نے وزیر اعظم ہاوس کے بجائے بنی گالا کے گھر میں قیام و طعام کو محفوظ جانا اب صرف اس بت کے گرنے کا انتظار کریں