سنا ہے وقت مرہم ہوتا ہے ہر دکھ کا ہر اداس گزری ہوئی شام کا مگر ہاں شاید عام زندگی میں ہم روزمرہ کی مصروفیت میں کچھ لمحے کیلئے اپنے دکھوں سے بے خبر ہو جاتے ہیں مگر جب بھی کسی لمحے میں گزرا ہوا کو ئی کربناک واقع کی وہ ساعت دوبارہ اگلے سال زیرنظر گزرے تو وہ تاریخ اس دکھ کا ماتم کرتے ہوۓ ان لمحات کو دوبارہ تازہ کر دیتی ہے نہ جانے وہ کون سے لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کے وقت مرہم بن کر سب بھلا دے گا۔ جس تن لاگے وہ تن جانے زندگی بھر وچھوڑوں کے خمیازے نہیں بھرے جا سکتے۔ جو بھی گیا وہ اپنے پیچھے اتنی یادیں اتنی باتیں چھوڑ کر گیا کے ہر پل اس کا چلنا، پھرنا ،ہنسنا، کھیلنا یاد کی صورت میں دماغ کے کسی کونے میں کسی فلم کی ریل کی طرح چلتا رہتا ہے۔
١٦ دسمبر کی وہ صبح جب اچانک تمام چینلز نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی خبر چلائی تو ایسے لگا جیسے دل نے سینے سے باہر نکل کر دوائیاں دینا شروع کر دی ہوں کچھ دیر بعد ان معصوم چہروں کی خون سے لت پت لاشیں دیکھنا بہت عبرتناک تھا وہ وقت جب تڑپتی ہوئی ماؤں کو اسکول کی جانب چیختے اور ماتم کرتے ہوئے اپنے بچوں کو نام لے کر پکارتے ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا وہ لمحہ کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ یہاں جنازہ صرف ان معصوم بچوں کے نہیں اٹھے پورے پاکستان کی ماٸیں اپنا کلیجہ ہاتھ میں تھامے گریاوزاری کرتی ہوٸی سڑکوں پر نکل آئی ۔۔۔
دہائی ہے! دہائی ہے!
آج تک کسی کو اس ایک سوال کا جواب نہیں ملا کے ان معصوم بچوں سے کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟کیوں معصوم بچوں کے چہروں پر خون گرایا گیا؟ کیا اس عمر کی وردی کا بھی خوف دشمن کے لیے معنی رکھتا ہے؟
یوں تو دسمبر پیار محبت تسکین کا مہینہ ہے مگر اس سانحہ کے بعد ہر دسمبر سوگ کا دھواں اڑاتا اور آنسوؤں کی مالا جپتا نظر آتا ہے۔
کیسے بھول جائیں؟ کاش ہم وہ لمحے پلٹ سکتے کاش یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا ہی نہ ہوتا ۔یہ بہت مشکل اور بس سے باہر کی بات ہے کہ ہم وہ معصوم چہرے بھول جائیں؟
شاعر بھی دسمبر میں اپنے لوگوں کو بلانے اور رلانے کی باتیں کرتے ہیں۔ کیوں کرتے ہیں؟
سنو!!!
اُسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے
ہوائیں سرد ہیں
اور وادیاں بھی دُھند میں گُم ہیں
پہاڑوں نے برف کی شال
پھر سے اُوڑھ رکھی ہے
سبھی راستے تمہاری یاد میں
پُر نم سے لگتے ہیں
جنہیں شرفِ مُسافت تھی
تمہاری یاد لاتی ہیں!
تمہیں واپس بُلاتی ہیں
اُسے کہنا کہ دیکھو یُوں ستاؤ نا
دسمبر لوٹ آیا ہے
سُنو تم بھی لوٹ آؤ نا
ہم سچ میں وہ وقت نہیں لوٹا سکتے مگر رب العالمین سے دعا ہے اپنی رحمت کے دروازے کھول کر ہمارے بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان تمام لوگوں کو صبر جمیل عطا فرمائے جن کے جگر کے ٹکڑے اس سانحے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بے شک رب کریم ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے آمین۔
نوٹ :ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ادارہ