نت نئی آڈیو لیکس،سب کے پیچھے کون ہے؟یہ قضیہ حل ہوپائے گا؟

Dec 21, 2023 | 10:38:AM

Read more!

پاکستان میں گزشتہ دو برس سے آڈیو لیکس کا بہت چرچا ہے۔ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی سیاست دان کی آڈیو لیک ہو جاتی ہے۔جس سے ہوشربا انکشافات سامنے آتے ہیں ۔آڈیو لیکس بھی ہواؤں کا رخ دیکھ کر ہی لیک ہو رہی ہے۔یہ کسی دور میں مسلم لیگ ن کے رہنماوں کی ہوتی تھی لیکن آج کل لیک ہونے والی آڈیو کا نشانہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔ا ٓج تک کوئی بھی ایجنسی،یا ادارہ ان آڈیوز لیک کی کھوج لگانے میں کامیاب نہیں ہوا۔نہ ہی یہ پتہ لگ سکا کہ یہ آڈیو کون اور کیوں ریکارڈ کر رہا ہے اور پھر اسے بے دھڑک لیک کرنے کے پیچھے کن مقاصد کی تکمیل پنہاں ہے۔ پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں اس طرح کی آڈیوز میں کانٹ چھانٹ کر کے اپنی مرضی کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی بھی میسر ہے جو کہ اس کانٹ چھانٹ کو پکڑ سکتی لیکن پاکستان میں قانونی طور پر ان کی روک تھام تقریبا ناممکن ہو چکی ہے ۔ ان آڈیو لیکس کو لیکر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ایک کیس کافی عرصے س ے چل رہا ہے او ر جسٹس بابر ستار اس کیس کو سن رہے ہیں ۔عدالت کے متعدد بار بار جواب طلبی کے باجود بھی کوئی بھی ادارہ یا حکومت عدالت کو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ آڈیوز کس نے اور کیوں لیک کی ،آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب اور سابق وزیر اعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیولیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے کسی ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں۔ وزیراعظم آفس کی پوزیشن ہے کہ آئی ایس آئی ، ایف آئی اے ، آئی بی کسی کو آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں، ایف آئی اے کو پہلے دیکھنا ہے کہ کس نے کال ریکارڈ کی ، عدالتی احکامات کے بعد ایف آئی اے ٹیلی کام کمپنیوں کو لکھ رہا ہے ، ایف آئی اے کو سن کر آئی پی ایڈریسز تک رسائی چاہیے ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کوئی حکومتی ایجنسی یہ ریکارڈنگز کر رہی ہے تو وہ غیر قانونی طریقے سے کر رہی ہے ، آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا فلیٹ فارمز سے رپورٹ لینی پڑے گی تب ہی تحقیقات آگے بڑھ سکتی ہیں۔اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی کہہ رہی ہے کہ آڈیو کہاں سے لیک ہوئی اس کے سورس کا پتہ نہیں لگا سکتی ، عدالت نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے ذریعے کیوں ریورٹ فائل کی ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو وزیراعظم آفس کے ذریعے ریورٹ فائل کرنی چاہیے تھی۔ پیمرا نے کہا کہ پرائیویٹ آڈیو لیک کو ٹی وی چینلز نشر نہیں کر سکتے ، عدالت نے استفسار کیا کہ پیمرا اس حوالے سے کیا ایکشن لے رہا ہے ؟ وکیل پیمرا نے کہا کہ ہم نے کہا تھا ٹی وی چینلز اس قسم کی آڈیو لیکس نشر نہیں کریں گے ، ہم نے یہ معاملہ کونسل آف کمپلینٹ کو بھیجا وہ فیصلہ کریں گے۔ جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ کیا آپ موثر طریقے سے بطور ریگولیٹر کام کر رہے ہیں ، عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے ٹی وی چینلز کو کسی اور کیس میں فوری ہدایات جاری کیں ہیں ؟ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوری طور پر اپ ایکشن نہیں لے سکتے معاملہ پیمرا کونسل آف کمپلینٹ کے پاس جائے گا۔ وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک دفعہ نہیں پورا دن ٹی وی چینلز پر وہ آڈیو لیکس چلتی رہیں،جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کھوسہ صاحب ، اعتراز صاحب نے لکھا تھا کہ ریاست ہو گی تو ماں کے جیسی ،وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ تضحیک آمیز رویہ ہے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ایک طرف فریڈم آف انفارمیشن دوسری طرف پرائیویسی کا معاملہ ہے کیسے بیلنس ہونا چاہیے ، ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ تماشا بنانا چاہتے ہیں تو بنا لیں، اب وفاقی حکومت پر ہے کہ وہ کیسے چلانا چاہتے ہیں، اگر حکومت نے نہیں بتایا تو پھر ہم نیشنل اور انٹرنیشنل عدالتی معاون مقرر کریں گے ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار آپ چیک کیجئے گا کوئی خبر تھی کہ آئی بی کو ریکارڈنگ کی اجازت دی گئی کیا ایسا ہے؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیا کہ میں چیک کرکے بتا دوں گا۔ وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہاں نام لینے پر تو پابندی ہے لیکن میری تصویر پورا دن چلتی رہی ہے ،جسٹس بابر ستار نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ کے الیکشن میں بھی پھر آپ کی مدد کرے گی، بحرحال یہ ایک سیریس ایشو ہے اس کو ایڈریس کریں گے۔ عدالت نے ایف آئی اے سمیت دیگر کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

مزیدخبریں