اسلام آباد کامیسٹس یونیورسٹی کے پرچے میں گھٹیا اور اسلام کے منافی سوال نے نظام تعلیم کا جنازہ نکال دیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
تعلیم کسی بھی ملک کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ آج کے اس دور میں جو ملک یا قوم ترقی یافتہ ہے صرف اور صرف تعلیم کے بل بوتے پر ہے۔ ہر ملک کی معاشی، سیاسی، معاشرتی حالت تعلیم پر منحصر ہے۔ اگر کسی ملک میں تعلیم کا معیار اعلی ہے تو ملک ترقی کی طرف گامزن ہو گا ۔ ہمارے ملک پاکستان میں تعلیم کا نظام قابل رحم ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے تعلیمی نصاب کے محتاج ہو چکے ہیں۔ اس نظام کو بہتر کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ۔ بہت سی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن نظام تعلیم پر کسی نے خاطر خواہ توجہ نا دی ۔ پاکستان میں تعلیم کو بھی تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جسے کے پاکستان میں اپر کلاس ، مڈل کلاس اور غریب کلاس کی تقسیم ہے۔ اسے ہی تعلیم کو بھی تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ، ہائی لیول کی تعلیم جوصرف امیر لوگوں کے بچے حاصل کرتے ہیں ، مڈل کلاس درمیانے درجے کے پرائیویٹ اسکولوں سے تعلیم حاصل کرتی ہے اور غیریب لوگ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ بہت کوششیں کی گئیں کے یکساں تعلیم کا نظام لایا جائے تاکہ یہ سب تفریق ختم ہوسکے ، لیکن ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہوسکا ، ناقص حکومتی پالیسیوں میں سیاسی مداخلت، بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم نے اس نطام کو بہتر نہیں ہونے دیا یا پھر گورنمنٹ نے جان بوھ کر اس میں تفریق پیدا کی ہوئی ہے تاکہ امیر اور غیریب برابر نا ہوجائیں ، کچھ تو ہے جو 75 سالوں میں ہم تعلیم کے شعبے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی ہی حاصل نہیں کرسکے ۔ ؔ
پاکستان کے نظام تعلیم کا یہ حال ہے کہ کبھی کتابوں سے اسلامی مواد ہٹا دیا جاتا ہے تو کبھی اس میں متنازعہ مواد ڈال دیا جاتا ہے ، ایسا کون کرواتا ہے آج تک اس کی تحقیقات نہیں ہوسکیں ۔ اور نا ہی کسی نے زخمت کی ہے کے اس پر ایک مکمل انکوائری کی جائے تاکہ اصل مجرم تک پہنچا جاسکے۔
پاکستان کہنے کو تو ایک اسلامی ملک ہے لیکن ہردور حکومت میں تعلیم کے شعبے کے ساتھ ایسا کھلوڑ کیا جاتا رہا کہ دیکھنے والے دھنگ رہ جاتے اور یہ سوچنے پر مجبو ہوجاتے ہیں کہ آخر ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، سسٹم کو کون تباہ کرنا چاہتا ہے اور کیوں ۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر عام انسان کے ذہن میں گردش کرتے ہیں ۔ کبھی امتخانات میں ایسے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ عام انسان بھی چند منٹ کے لیے کومے میں چلا جاتا ہے ۔ آخر کون ہے جو یہ پرچے بناتا ہے ۔ اورکون انہیں ایسے سوالات بنانے پر مجبور کرتا ہے ، اب اسلام آباد کی یونیورسٹی کا کارنامہ چیک کریں آپ ایک مرتبہ شوک ہوجائں گے بلکے یقین کریں آپ کے پاوں تلے سے زمین نکل جائے گی ۔
یہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کامسیٹس، کا انگریزی کا پرچہ ہےفل توجہ سے اس کا سوال پڑھیں اور پھر سوچیں کے کیا ہم پاکستان میں رہتے ہیں ؟
”جولی اور مارک بہن بھائی ہیں، وہ کالج سے گرمیوں کی چھٹیوں میں فرانس میں اکٹھے سفر کر رہے ہیں۔ایک رات وہ ساحل سمندر پر ایک کیبن میں اکٹھے گزارتے ہیں۔وہ یہ فیصلہ کرتے ہی کہ یہ رات اگر وہ پیار کرنے میں گزار دیں تو یہ بڑا پر لطف کام ہو سکتا ہے۔کم از کم یہ ان کے لیے ایک نیا تجر بہ تو ہو گا۔جولی پہلے ہی مانع حمل ادویات استعمال کرتی تھیں اور مارک کنڈوم اپنے ساتھ رکھتا تھا، تا کہ حفاظتی اقدامات برقرار رہیں۔دونوں نے بہت لطف اٹھایا اور بہت پیار کیا۔لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ بات کسی اور کو نہیں بتانی اور ایسا پھر کبھی نہیں کرنا اور یہ ان کا خاص سیکرٹ تھا۔”
ایسے سوالات بنانے والے کا یا تو کوئی مذہب نہیں یا پھر کوئی تیسری طاقت ہے جو پاکستان کی نسل کو تباہ وبرباد کرنا چاہتی ہے ۔
ایسی تعلیم سے بہتر ہے کہ انسان ان پڑھ ہی رہے تاکہ اس میں بہن، بھائی اور اچھے، برے کی تمیز تو برقرار رہے ۔ اسلام ایسے بدکاری کے کاموں سے قرآن پاک میں بار بار منع کرچکاہے ، لیکن امتخانات میں ایسے گھٹیا کاموں کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ کون ہمارے معاشرے کو ان گھٹیا اقتدار کی طرف لانا چاہتا ہے ۔ آخر کیوں پاکستان کو مغرب کی طرز پر لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ، کس کے کہنے پر تعلیم کا جنازہ نکالا جارہا ہے ۔ اگر پاکستان ، تعلیم اور اسلام کے نظام کا تحفظ کرنا ہے تو لازم ہے کہ اسلام آباد کامسیٹس یونیورسٹی کے اس واقعے کے خلاف فوری مقدمہ درج کرکے مکمل جانچ پڑتال کی جائے اور ملزم کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے، تاکہ نظام اسلام ،پاکستانی معاشرے ، زیر تعلیم سٹوڈنٹس اور آنے والی نسل کو ایسی گھٹیا اور اسلام کے منافی تعلیم سے بچایا جا سکے ،
اللہ آپ کا حامی وناصر ہو اللہ حافظ ۔۔