کٹ نہ کوئی یوٹرن، چودہ ملکوں سے گزرنے والی دنیا کی سب سے طویل سڑک
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)پین امریکن ہائی وے دنیا کی سب سے طویل شاہراہ ہے، یہ ایک اہم سڑکوں کے جال کا حصہ ہے جو امریکہ کے شمالی حصے سے لے کر جنوبی امریکہ کے دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔
اس ہائی وے کا آغاز امریکہ کی ریاست ایلاسکا کے پرڈو بی سے ہوتا ہے اور یہ 30 ہزارکلومیٹر تک پھیل کر جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک سے گزرتا ہے۔
پین امریکن ہائی وے کی جغرافیائی اہمیت
پین امریکن ہائی وے، متعدد ممالک سے گزرتی ہے، جن میں امریکہ، کینیڈا، میکسیکو، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور، ہونڈوراس، نکاراگوا، کوسٹا ریکا، پاناما، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو، چلی اور ارجنٹائن شامل ہیں۔ یہ ہائی وے مختلف اقلیمی زونز سے گزرتی ہے، جس میں گھنے جنگلات، بلند پہاڑ، خشک ریگستان، اور خوبصورت ساحلی راستے شامل ہیں۔
اس کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا کے مختلف موسمی حالات اور ماحولیاتی اقسام سے گزرتی ہے، جس سے اس پر سفر کرنا ایک خاص تجربہ بن جاتا ہے۔
دنیا کی سب سے طویل شاہراہ کا ریکارڈ
پین امریکن ہائی وے کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کی سب سے طویل سڑک کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس کے راستوں میں مختلف قسم کی سڑکیں شامل ہیں، جو مختلف ممالک کی حدود میں مختلف نوعیت کی ہیں۔ کبھی یہ شاہراہ تعمیر شدہ اور بہتر ہوتی ہے، اور کبھی یہ راستہ مشکل اور بے راہ ہوتا ہے، خاص طور پر کچھ علاقوں میں جہاں موسمی حالات غیر متوقع طور پر تبدیل ہو سکتے ہیں۔
سفر کا دورانیہ
پین امریکن ہائی وے کے طویل سفر کا دورانیہ مختلف عوامل پر منحصر ہوتا ہے، جیسے گاڑی کی رفتار، راستے کی حالت اور موسمی حالات۔ عمومی طور پر، اگر کوئی شخص پوری ہائی وے کا سفر کرتا ہے، تو اسے تقریباً 60 دن لگ سکتے ہیں، مگر اس سفر کا دورانیہ مختلف ہو سکتا ہے۔ مثلاً، ایک مشہور مثال کارلوس سانتاماریا کی ہے، جنہیں اس راستے کا سفر مکمل کرنے میں 117 دن لگے۔
پین امریکن ہائی وے کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت
پین امریکن ہائی وے نہ صرف دنیا کی سب سے طویل سڑک ہے بلکہ یہ مختلف ثقافتوں اور قوموں کے درمیان روابط کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
یہ سڑک مختلف معاشروں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے، جہاں مسافر مختلف زبانوں، ثقافتوں اور رسم و رواج کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
پین امریکن ہائی وے کا یہ جال دنیا بھر کے لوگوں کے لیے نہ صرف ایک سڑک ہے بلکہ ایک تجربہ ہے جو ان کے ثقافتی اور تاریخی علم میں اضافہ کرتا ہے۔