آج سرائے خربوزہ میں ایک غریب عورت اپنے پلاٹ کی رجسٹری کروانے میرے پاس آئی اس نے بتایا کہ میں نے پانچ مرلے کا پلاٹ سات لاکھ پچاس ہزار روپے میں خرید کیا ہے اس کے لیے میں نے ایک سال میں رقم اکٹھی کی۔ کچھ رقم کمیٹی ڈال کر اکٹھی کی، کچھ رقم اپنی سونے کی بالیاں بیچیں اور کچھ رقم اپنی بیٹی کے سونے کے ٹیپس فروخت کیے پھر بھی رقم پوری نہ ہو رہی تھی ایک لاکھ روپے کم تھے۔ جو میرا بیٹا ایک ہوٹل میں کام کرتا ہے اس کے مالک سے منت سماجت کر کے بیٹے کی 6 ماہ کی تنخواہ ایڈوانس وصول کی۔ تو میری رقم سات لاکھ پچاس ہزار پوری ہوئی یہ رقم پوری کرنے کے لیے ایک سال کا ٹائم لگا اس دوران کتنی دفعہ فاقہ کشی کی، کتنی دفعہ میلوں سفر پیدل طے کیا تاکہ کوئی بچت ہو سکے۔ اور پریشان اور غمگین لہجے میں کہا کہ جس مالک سے جگہ لی وہ گین ٹیکس دینے سے بھی انکاری ہے۔
وہ بولی کہ مالک نے کہا ہے کہ تم نے ایک سال تک پلاٹ ٹرانسفر نہیں کروایا رقم بھی مجھے لیٹ دی لہذا گین ٹیکس بھی آپ نے ہی دینا ہے مجھے میرے پانچ مرلے کی رجسٹری کا خرچہ بتا دیں۔ جس پر میں نے پوچھا کہ آپ فائلر ہیں کہ نان فائلر بوڑھی اماں نے جواب دیا کہ بیٹا یہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی سادگی اور غربت دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اسے کچھ علم نہیں ہے۔ پھر میں نے نان فائلر کے حساب سے جب اس کا سرکاری خرچہ بنایا تو پتہ چلا کہ اس کے پلاٹ ٹرانسفر کروانے پر 24 فیصد خریدار کا ٹیکس اور 11فیصد مالک کا ٹیکس کل ملا کر 35فیصد۔ جس کا سرکاری ڈی سی ریٹ 575،000روپے فی مرلے تھا کل قیمت 2875000 روپے بنی اس حساب سے غریب اماں کے پلاٹ کی رجسٹری ٹرانسفر فیس کے سرکاری اخراجات دس لاکھ چھ ہزار روپے بنے۔ باقی دیگر اخراجات پٹواری انتقال رشوت وغیرہ الگ ہے تو میں نے اماں جی کو بتایا پہلے تو غریب اماں میرے منہ دیکھتے ہوئے بولی بیٹے میرے ساتھی مذاق نہ کرو۔ پلاٹ کی قیمت سے بھی زیادہ رجسٹری پر اخراجات آ رہے ہیں۔ تو میں نے اماں کو بتلایا کہ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں یہ حقیقت ہے تو اس کے آنکھوں میں آنسو آ گئے اور روتے ہوئے کہنے لگی اب تو میں پلاٹ سے بھی گئی میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا تو اماں جی نے کہا کہ جس سے پلاٹ لیا ہے وہ اور ایک ڈیلر میرے گھر آئے اور کہا کہ اب اگر پلاٹ ٹرانسفر نہ کروایا تو ہم کسی چیز کے ذمہ دار نہ ہوں گے ،کل کوئی بھی قبضہ کر لے یا کچھ بھی ہو جائے۔ اماں جی کی باتیں سن کے میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ اماں مجھے بھی اس حالت میں دیکھ دلبرداشتہ ہوکر زور وقطار رونے لگی۔ اور حکمرانوں کو بدعائیں دیتے ہوئے چلی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ غریب اب اپنے بچوں کے لیے رہنے کے لیے چھت بنانا سوچ بھی نہیں سکے گا۔ بجلی اور گیس کے بلوں، گھر کے اخراجات بھی اسے اب سر نہیں اٹھانے دے گا۔ ایک 30ہزار تنخواہ دار کیسے گھر کا نظام چلائے گا۔ ہمارے حکمران اپنے اپنے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں اداروں کے لوگ خدا بنے اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے اسی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ بھی رہے ہیں اور ساتھ مار بھی رہے ہیں۔ ملک میں کرپشن ظلم و بربریت عروج پر جا رہی ہے۔ چوری ڈکیتی زنا قتل سب کچھ عروج پر ہے۔ لوگ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے اب عزتیں نیلام کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ بھوک اور افلاس میں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں ۔ ایسا نظام کب تک چلے گا؟ خدا کو بھی جواب دینا ہے۔ اب بات بہت آگے چلی گئی ہے۔
خدارا ان حالات کو اگر کوئی سنبھال سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف آرمی چیف ہیں۔ جن سے شہیدوں کے ایک پروگرام میں ایک شہید کی بچی نے شکایت کی کہ سندھ کا وڈیرہ ہماری زمینوں پر پانی چھوڑ رہا ہے چیف صاحب نے پیچھے مڑ کر اپنے آفیسر کو کہا کہ اسے منع کر دو ،پانی آج کے بعد نہ چھوڑے جس پر بچی نے پھر چیف صاحب کو کہا کہ وہ پانی ہماری زمینوں پر چھوڑے گا تو چیف صاحب نے جواب دیا کہ اب اگر اس نے پانی چھوڑ ا تو پانی کہیں اور چلا جائے گا۔ یقیناً اب وہ پانی اس شہید کی زمین پر وڈیرے نے نہیں چھوڑا ہو گا۔
جناب محترم چیف صاحب! ہم آپ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ اب آپ یہ میسج تمام اداروں، سیاستدانوں کو دے دیں کہ اب جو ملک اور عوام کے لئے کا م کریں ۔ایسا ہوجائے تو سب ایک ماہ میں ٹھیک ہو جائے گا۔