مولانا سر گرم۔۔زرداری کا پیغام پہنچایا۔۔نواز اور مریم کا پیپلز پارٹی کے مطالبے ماننے سے انکار

Mar 21, 2021 | 22:24:PM

  (24نیوز ) حکومت کو گرانے کیلئے لانگ مارچ، استعفوں اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے مسئلے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ڈیڈ لاک تا حال برقرار ہے۔مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں استعفے دینے کیلئے تیار ہیں جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں رہ کر کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔اس تمام صورتحال میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنی سی تمام کوششیں کرنے میں مصروف ہیں۔
اتوار کو مولانا   فضل الرحمان نے جاتی امرا میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے ملاقات کی۔
ملاقات کی اندرونی کہا نی کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے درمیانی راستے کی تلاش کیلئے تبادلہ خیال کیا۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے شریک چیئر مین پیپلز پارٹی اورسابق صدر آصف علی زرداری کا پیغام مریم نواز کہ پہنچایا،جواب میں مریم نواز نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم اس مسئلے پر پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کو تیا ر ہیں اور اپوزیش لیڈر کیلئے ہم اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرینگے لیکن پھر پیپلز پارٹی کو لانگ مارچ اور استعفوں کے معاملے پر ہمارا ساتھ دینا پڑے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے بھی اس حوالے سے گفتگو کی لیکن نواز شریف نے بھی پیپلز پارٹی کے مطالبے پر کہا کہ مولانا صاحب ہر بات ہم نہیں مانیں گے ، کچھ ہماری بھی مانی جائیں پھر ہی مل کر چلا جا سکے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے مریم نواز کو لانگ مارچ کے معاملے پر مل کر چلنے کی پیشکش کی اور کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے اور کوشش کرینگے کہ مقصد حاصل ہو جائے۔ اس موقع پر لانگ مارچ کے اخراجات پر بھی تبادلہ خیال ہوا ،میاں نواز شریف نے لانگ مارچ کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھالی۔ملاقات میں اتفاق ہوا کہ لانگ مارچ میں مہنگائی کے ایشو کو نمایاں کیا جائے گا کیونکہ بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام بہت پریشان ہیں۔ 
واضح رہے کہ پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں یہ بات طے پائی تھی کے چیئر مین سینٹ پیپلز پارٹی سے ہوگا جبکہ ڈپٹی چیئر مین جے یو آئی کا ہوگا اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہوگا لیکن شومئی قسمت اکثریت کے باوجود پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی اور عبد الغفور حیدری شکست کھا گئے تھے اس لئے اب پیپلز پارٹی سینٹ میں اپنی اہمیت بر قرار رکھنے کیلئے کم از کم اپو زیشن لیڈر اپنا لانا چاہتی ہے۔

مزیدخبریں