(24 نیوز)اسلا م آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کی فوری رہائی اوروفاقی حکومت کو معاملے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیدیا۔عدالت نے کہاکہ وفاقی حکومت جوڈیشل کمیشن قائم کرکے ٹی آو آر عدالت میں جمع کرائے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں شیریں مزاری کے مبینہ اغوا کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست پر سماعت کی،پولیس نے پی ٹی آئی رہنما کو عدالت میں پیش کردیا۔
شیریں مزاری نے عدالت میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ دن ڈیڑھ بجے میری گاڑی کو روکا گیا،پولیس اہلکاروں نے کہاکہ آپ گاڑی سے نکلیں کوئی بات کرنی ہے،اس مرتبہ سفید گاڑی تھی ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ہر حکومت کا ردعمل مایوس کن رہا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ موٹروے پر لے کر گئے اور چکری کے پاس گاڑی روک لی ،میرے ناخن نوچے گئے، کرمنل رویے کا مظاہرہ کیا،میں نے کہاکہ 70 سال عمر ہے اور مریضہ ہوں ،شیریں مزاری نے کہاکہ ایک ڈاکٹر آیا کہ آپ کا میڈیکل ٹیسٹ کرنا ہے کہ آپ سفر کے قابل ہیں یا نہیں ، میں نے میڈیکل کرانے سے انکار کیا،مجھے گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ انہیں واپس لے کر جا رہے ہیں ۔
آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ میں نے آج ہی چارج سنبھالا ہے ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پی ٹی آئی کا کوئی ممبر ابھی تک ڈی نوٹیفائی نہیں ہوا،سپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا،ایک آئین ہے، یہ عدالت آئین پر چلتی ہے،آئی جی آپ کو ذمہ داری لینا ہوگی، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ رجسٹرارذمے دار ہے،آپ بتائیں معاملے کی انکوائری کون کرے گا؟عدالت اپنی حدود میں قطعاً یہ برداشت نہیں کرے گی۔
ڈپٹی کمشنر اسلا م آباد نے کہاکہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے چیف کمشنر سے رابطہ کیا تھا،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آج تک مطیع اللہ جان کے کیس کی انویسٹی گیشن تک نہیں ہوئی ۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے تو انکوائری کرکے ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی، جیسے ہی پتہ چلا تو ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کئے گئے ،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کسی کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی تو رہائی کا حکم کیسے دیاگیا؟
ایمان مزاری نے کہا کہ ان سے پوچھیں کہ یہ جوڈیشل انکوائری سے کیوں گھبرا رہے ہیں ؟
ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ شیریں مزاری استعفیٰ دے چکی ہیں ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ وہ بے شک استعفا دے چکی ہوں، مگر انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیاگیا،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہاکہ ماضی میں بھی ارکان سمبلی کو گرفتار کیا گیا جو آج بھی کسٹڈی میں ہیں ، پولیٹیکل لیڈرشپ کو بیٹھ کر سوچنا چاہئے،یہ بہت قابل افسوس واقعہ ہے جب آپ حکومت میں تھیں تو اس سے زیادہ بڑے واقعات ہوئے، جب آئین کا احترام نہیں کریں گے تو ایسا ہوگا،عدالت مسنگ پرسنزکے کیسز سنتی رہتی ہے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔
اسلام آبادہائیکورٹ نے شیریں مزاری کو فوری رہاکرنے کا حکم دیدیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ شیریں مزاری کو بظاہر غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا، شیریں مزاری کا فون بھی انہیں واپس کیا جائے،
فوادچودھری نے کہاکہ ڈیٹا ٹرانسفر ہو گیا ہوگا، انہیں کہیں کہ فون ابھی واپس کردیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہ ایسی بات نہ کریں ، کسی پر شک نہیں کرنا چاہئے ، آئی جی صاحب، فون اور باقی چیزیں لے کر ابھی ان کو واپس کریں۔عدالتی حکم کے بعد شیریں مزاری نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ تھینک یویورآنر ۔