اپریل میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ گذشتہ سال کی نسبت 29.22 فیصد تک کم ہو کر 1.232 بلین ڈالر تک رہ گئی صنعتکاروں کا انڈسٹری چلانا دشوار ہو گیا۔
انڈسٹری ذرائع کےمطابق گذشتہ ماہ دھاگہ اور گارمنٹس 34 فیصد ،کاٹن کلاتھ 18 فیصد اور ٹاولز کی ایکسپورٹ میں 26 فیصد تک کمی ہوئی جس سے فیکٹریوں میں 50 فیصد کام بندکردیا گیا۔روزبروز کی ہنگامہ آرائی اور بدلتی سیاسی صورتحال نے ملکی ایکسپورٹ کو بھی بریک لگا رکھی ہے ایک طرف صعنتکار پریشان ہیں تو دوسری طرف مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔
چئیرمین پی ایچ ایم اے خواجہ امجد کا کہنا ہے کہ ہم بھی پریشان ہیں اور ہمارے خریدار بھی وہ سمجھتے ہیں اس ملک میں سیاسی کھینچاتانی کی وجہ سے یہ انکے لئے محفوط نہیں ہے۔ پہلے تین شفٹیں چلتی تھیں اب ایک بھی بہت مشکل سے چل رہی ہے، کام نہیں مل رہا مہنگائی کی وجہ سے دال ، گھی چینی ، ہر چیز کو آگ لگی ہے۔
ضرور پڑھیں :جو امن نہیں دے سکتے ان کوحکومت کرنے کا حق نہیں، سراج الحق
تفصیلات کے مطابق روئی کی عدم دستیابی اور درآمدات کے لیے قرضے کے خطوط (LCs) پر پابندیوں نے بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس سے پورے شعبے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیل رہی ہے۔
یہ مسئلہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے اپریل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جمیل احمد کو بھیجے گئے ایک خط میں اٹھایا تھا۔ ایسوسی ایشن نے متنبہ کیا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے کیونکہ اس کی پیداوار اور آمدنی صلاحیت سے بہت کم ہے۔
ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک کے گورنر پر زور دیا کہ وہ روئی کی درآمد کے لیے ایل سیز کھولنے کی اجازت دیں، یہ بتاتے ہوئے کہ درآمدی کنسائنمنٹ بندرگاہوں پر پھنس گئے ہیں، جنہیں ترجیحی بنیادوں پر جاری کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن تا حال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔