(فرخ احمد) سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ پنجاب حکوت کے ہتک عزت بل اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔
24 نیوز کے ٹاک شو ’دی سلیم بخاری شو‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سلیم بخاری نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت پر اپنی تعزیتی رائے کا اظہار کیا، انہوں نے ایرانی صدر کو بہترین انداز میں خراج تحسین بھی پیش کیا، انہوں نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور اس کے حل کے لیے ان کے کردار کو انتہائی دانشمندانہ قرار دیا، انہوں نے دیگر خارجہ امور میں خاص طور پر سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات دوبارہ استوار کرنے میں ان کے کردار کو سراہا، اسرئیل کے مسئلے پر بات کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر واحد مسلم مملکت کے سربراہ تھے جنہوں نے فلسطین کے عوام کے ساتھ ظلم وتشدد پر نہ صر ف آواز بلند کی بلکہ اسرائیل کو اس کی زبان میں جواب دیکر ثابت کیا کہ وہ پوری طرح سےاپنا دفاع بھی کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خان صاحب باہر آئے کے آئے: سلیم بخاری
سینیئر صحافی نے پنجاب حکوت کے ہتک عزت بل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی حکومت جو کہ کمزور ہوتی ہے و ہ سب سےپہلے پریس کا منہ بند کرتی ہے تاکہ اس کی کمزوریاں اور پالیسیوں پر تنقید نہ ہوسکے۔ انہوں نے پریس میڈیا رائز اینڈ فال ٹوگیدر (Press and media rise and fall together)، پریس پر ملٹری ڈکٹیٹرز او ر پریس پر پابندی کےحوالے سے آمرانہ ادوار پر روشنی ڈالی کہ کس طرح سے اپنی غیر آیئنی حکومتوں کو دوام بخشنے کے لیے کون کونسے حربے استعمال کیےگئے۔
بل کے حوالے سے مزیدبات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بل کا مواد اور متن کئی حوالوں سے پریشان کن ہے، پہلی بات یہ کہ اس بل میں ہتک عزت کے دعوؤں کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک متوازی ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے، یہ اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔
ہتک عزت کے ٹربیونلز کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جب کہ حکومت کو موجودہ ماتحت عدلیہ کے مقابلے میں زیادہ الاؤنسز اور مراعات پر ججوں کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ تیسری بات یہ کہ ہتک عزت کے تمام مقدمات کو 180 دن کی مختصر مدت میں نمٹانا ہوگا، بل کے مطابق بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر ہتک عزت کے ٹربیونلز بغیر کسی ٹرائل کے فوری طور پر 30 لاکھ روپے تک کے معاوضے کی ادائیگی کا عبوری حکم نامہ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے، اس بل کو انتہائی عجلت میں پیش کیا گیا، سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل اور مرکزی میڈیا کے اداروں کے ساتھ کسی بھی بامعنی مشاورت کے لیے پانچ دن کا وقت انتہائی کم ہے۔
نیٹ میٹرنگ کے بجائے گراس میٹرنگ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ گراس میٹرنگ ایک منصوبہ نہیں بلکہ غریب عوام کے ساتھ ایک بہت بڑی سازش ہے کیونکہ پہلے تو حکومت نے عوام کو اکسا کر سولر پینل لگانے پر مجبور کیا، پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں سے پریشان عوام نے لاکھوں روپے خرچ کرکہ اپنے گھروں میں سولر پینل سسٹم لگایا تاکہ بجلی کے زائد بلوں سے جان چھڑا سکیں، ایسے افراد سوچتے رہے کہ ایک ہی مرتبہ سولر سسٹم لگا کر لاکھوں روپے کی ادائیگی کے بعد اب وہ مفت اور زیادہ بجلی کا استعمال کرسکیں گے اور بجلی کا بل بھی نہیں آئے گا، لیکن حکومت کو عوام کی زندگی میں یہ آسانی ایک آنکھ نہ بھائی اور ان کی زندگی اجیرن کرنے کا منصوبہ لے آئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے رویہ سے لگتا ہے کہ حکومت کے دل میں عوام کے لیے رتی بھر بھی ہمدردی نہیں ہے او ر وہ چاہتی ہے کہ مجبور عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑلیا جائے، انہوں نے حکومت کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی کا ردعمل بڑا شدید ہوگا کیونکہ عوام یہ سمجھے گی کہ حکومت جان بوجھ کر عوام کے ساتھ یہ ظلم کر رہی ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کو پیش کیے گئے پلان پر تبصرہ کرتے ہوے ان کا کہنا تھا کہ کیسے وفاقی حکومت ایک سال میں 300 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کم کرنے کے لیے جو اقدامات کر ہی ہے وہ غریب عوام میں احساس محرومی پیدا کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: منافع بخش قومی اداروں کی نجکاری مناسب حکمت عملی نہیں: سلیم بخاری
ایک سال سے خالی گریڈ ایک سے 16 کی تمام پوسٹوں کو ختم کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہا یہ پڑھے لکھے نوجوان طبقے کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ ہر کوئی تو سی ایس ایس کرکے نہیں آسکتا، حکومت اپنے اللے تللے تو ختم کرنے کو تیار نہیں بلکہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر فنڈز اکٹھے کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔
سینیئر صحافی نے محمد خان جونیجو کی دور حکومت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بیوروکریسی کو بھی چھوٹی گاڑیوں پر بٹھا دیا تھا، لیکن بیوروکریسی ایسی پالیساں بناتی ہیں تاکہ ان کی عیاشی ختم نہ ہو۔
آخر میں حکومت سے استدا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خدا کے واسطے غریب عوام کی فلاح بہبود کے لیے کام کریں اور ان کی زندگی میں آسانیاں لانے کی کوشش کریں۔