(احتشام کیانی) جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز ہوتے رہیں گے یہ عدالتیں کام کرینگی،درخواست گزار وکیل نے کہا کہ عدالت سے متعلق بھی بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں،کوئی پریس کانفرنس کرتا ہے کرتا رہے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی کسی کے Behalf پر پریس کانفرنس کرتا ہے کرتا رہے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا،عدالتیں ان تمام چیزوں سے ماورا ہوتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کے کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی،اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت میں پیش،دلائل دئیے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ الزام ہے کہ بہت سے لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہوتے ہیں،وہ کھاتے پیتے بھی ہونگے، خرچ سرکاری خرانے پر آتا ہے؟ایجنسیوں کے فنڈز کا کوئی سالانہ آڈٹ ہوتا ہے؟ ہم نے پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کو موثر بنانا ہے،یہی تین ادارے ہیں جنہوں نے تفتیش کرنی ہوتی ہے باقی ایجنسیاں انکی معاونت کر سکتی ہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ایجنسیوں کے کام پر کسی کو اعتراض نہیں، اعتراض ماورائے قانون کام کرنے پر ہے، وزیراعظم شہباز شریف کو عدالت میں طلب کیا انہوں نے بھی یہی کہا، ہم سب نے قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے،اس ملک نے دہشتگردی میں 70 ہزار جانیں گنوائی ہیں، قانونی دائرے میں جو اختیار ملتا ہے اس پر عملدرآمد کریں۔اٹارنی جنرل بولے کہ جب تک سیاسی طور پر س معاملے کو حل نہیں کیا جاتا تب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ مطلب آپ یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسلئہ ہے؟ہم نے باہر سے کی کو نہیں بلانا کہ آ کے معاملہ حل کرے،غلطیاں ہوتی ہیں غلطیوں سے سیکھ کر آ گئے بڑھنا ہوتا ہے، یہ 21 ویں سماعت ہو رہی ہے، آپ کی محنت سے کئی سٹوڈنٹس بازیاب ہوئے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیا کہ ریاست کو ہمدردی دکھانی پڑے گی،ہماری اکانومی بہت نیچے جا چکی ہے، جسٹس محسن کیانی بولے کہ ان حالات میں ملکی یا عالمی انوسٹرز کیسے یہاں سرمایہ کاری کرینگے،اسلام آباد ہائیکورٹ کی ایڈمنسٹریٹو کمیٹی نے گزشتہ روز ریونیو سے متعلق کیسز الگ کیے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ ماڈل کے طور پر ریونیو سے متعلق کیس جلد از جلد نمٹا کر دے گی۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیا کہ ہم نے لاپتہ افراد کیسز میں بہت کام کیا، جو رہ گیا وہ بھی کریں گے تھوڑا سا وقت دے دیں،سیاسی حل بھی تلاش کیا جارہا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ جنگ میں بھی سفید جھنڈا لہرا کر سیز فائر کی جاتی ہے بات چیت کر کے حل نکالا جاتا ہے،اٹارنی جنرل منصور اعوان بولے کہ ہماری بھی یہی استدعا ہے کہ تھوڑا وقت دے دیا جائے،۔
ضرور پڑھیں:بنیادی معاشی اہداف کا تعین،آئی ایم ایف اور پاکستان کے اختلافات برقرار
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز ہوتے رہیں گے یہ عدالتیں کام کرینگی،درخواست گزار وکیل نے کہا کہ عدالت سے متعلق بھی بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں،کوئی پریس کانفرنس کرتا ہے کرتا رہے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی کسی کے Behalf پر پریس کانفرنس کرتا ہے کرتا رہے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا،عدالتیں ان تمام چیزوں سے ماورا ہوتی ہے۔
ایمان مزاری ایڈوکیٹ بولیں کہ لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا، لاپتہ افراد کی کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں سے لواحقین سے ملنے کوئی بھی نہیں گیا،کمیشن بنا دیا گیا لیکن کوئی بھی پروگریس نہیں ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین کو کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا استفسار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے مطابق جو معلومات عدالت کے سامنے پیش کی گئیں وہ درست نہیں ہیں،اس معاملے میں اٹارنی جنرل کی کاوشوں کو سراہنا ہوگا، اٹارنی جنرل کی کاوشوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں، جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز آتے رہیں گے یہ کورٹس کام کرتی رہیں گی،ایک کیس نہیں ہے کہ اس پر آرڈر کریں اور بات ختم ہو جائے۔