(احتشام کیانی) ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 9 مارچ کو سائفر کاپی ملی اور انہوں نے 27 مارچ کو پبلک کر دی، انہوں نے سائفر کے متن میں ذاتی فائدے کے لئے ہیرا پھیری کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی۔
دورانِ سماعت ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ سائفر کا متن کہاں ہے، بانی پی ٹی آئی عمران خان پر عائد کی گئی فردِ جرم سائفر سے متعلق تھی، بانی پی ٹی آئی کو بطور وزیراعظم سائفر دستاویز فراہم کیا گیا، بانی پی ٹی آئی اِس بات کو خود تسلیم کر چکے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے سائفر کو پبلک کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سائفر سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت، چیف جسٹس عامر فاروق کے سوالوں سے پراسیکیوٹر پریشان
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا محض معلومات دینا بھی جرم بنتا ہے؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی، وہ بھی جرم بنتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے اس عمل سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا، بانی پی ٹی آئی کے دانستہ یا نادانستہ اقدام سے دیگر ممالک نے فائدہ اٹھایا، سائفر کی معلومات صرف 9 لوگوں سے شیئر کی جاتی ہے، بانی پی ٹی آئی کو 9 مارچ کو سائفر کاپی ملی اور انہوں نے 27 مارچ کو پبلک کر دی، بانی پی ٹی آئی نے سائفر کے متن میں ذاتی فائدے کیلئے ہیرا پھیری کی۔
چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ ہمارے پاس دستاویز ہی نہیں تو پھر کیسے موازنہ (Compare) کریں؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایک آدمی تسلیم کر رہا ہے کہ یہ سائفر ہے اور یہ میں کر رہا ہوں، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کا متن کیا تھا وہ ہی بتا دیں، ہمیں کیا پتہ یا ٹرائل کورٹ کو کیا پتہ۔