نامزد چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کے بارے میں وہ باتیں جو بہت کم لوگ جانتے ہیں 

تحریر : عامر رضا خان 

Oct 22, 2024 | 23:46:PM
نامزد چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کے بارے میں وہ باتیں جو بہت کم لوگ جانتے ہیں 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

26 ویں آئینی تبدیلی کے بعد کی صورتحال پہلے سے بھی ذیادہ دلچسپ ہوگئی ہے اس ترمیم کے آنے سے پہلے حکومت اور اپوزیشن ایسے مدمقابل تھے  کہ جیسے ایک فریق حکومت قاضی فائز عیسیٰ کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپوزیشن والے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے میں کوشاں ہیں لیکن ایک تیسری قوت بھی اس ساری جنگ میں پیش پیش تھی اور وہ قوت تیسری قوت تھی کچھ اور نا سمجھیں میرا کہنا ہے  مولانا فضل الرحمان ،اب لڑائی کن میں تھی اور کامیابی کس کی ہوئی  یہ لکھنے سے پہلے ایک قصہ سنانا چاہتا ہوں اسے ہرگز ہرگز کسی گستاخی پر مبنی نا سمجھا جائے یہ صرف ایک قصہ ہے جو لوک داستانوں میں ضرب المثل کی حثیت رکھتا ہے پہلے قسہ سُن لیں ۔
ایک جنگل میں دو بلیوں کو مشترکہ طور پر روٹی کا ایک ٹکرا ملا دونوں میں ملکیت کا جھگڑا شروع ہوا ایک بلی نے اپنا رعب جمایا دوسری نے اپنا حق جتلایا لیکن کوئی بات بن نا آئی تو دونوں کو یہ بات بھائی کہ کیوں نا ملکیت کا فیصلہ بندر سے کرالیا جائے لہذا دونوں بلیاں بندر کے پاس پہنچیں اور مسلہ بیان کیا بندر نے کہا مسلہ تو گھمبیر ہے لیکن اگر جنگلی آئین کے تناظر میں اسے حل کیا گیا تو ایک کی جان بھی جاسکتی ہے ،اس لیے بہتر ہوگا کہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق روٹی کو برابر حصوں میں تقسیم کردیا جائے دونوں فریقین کو انصاف پر مبنی یہ بات پسند آئی لہذا بندر نے انصاف کا ترازو لیا اور روٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے تولا تو ایک ذرا وزن میں زیادہ نکلی دونوں بلیاں اس پر پھر غرائیں تو بندر نے جلدی سے وزنی ٹکڑے میں سے ایک تکڑا کاٹ کھایا ، اب اور مسلہ گھمبیر ہوگیا اب کم وزن والا ٹکڑا ذیادہ وزن کا ہوگیا اس سے پہلے لڑائی بڑھتی بندر نے پھر وہی حرکت فرمائی دو چار مرتبہ کی انصاف پسندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں بلیاں منہ اٹھائے دیکھ رہی تھیں اور بندر ساری روٹی کھا چکا تھا ،دونوں بلیاں بھوکی رہیں لیکن بندر کے گُن گاتی رہیں کہانی کا نتیجہ جو ماہرین نے نکالا کہ اگر بلیاں افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرلیتیں تو دونوں بھوکی نا رہتیں ۔
یہ کہانی مجھے آئینی ترمیم کے سارے قصے میں یوں نظر آئی کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اس ترمیم کی مناسب تقسیم کے لیے مولانا فضل الرحمان کا انتخاب کیا کوئی اُن کے پیچھے نماز پڑھتا رہا اور کسی نے تہجد کے وقت حاضری رجسٹر میں اپنا نام لکھوایا لیکن نتیجہ کیا نکلا نا قاضی فائز عیسیٰ بچ پائے  نا جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کے چانسز نطر آرہے ہیں لیکن اب جو ہوا وہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے نا بلوچستان کا قاضی رہا نا پنجاب کا منصور جو نام نکل کر سامنے آیا وہ جسٹس یحیٰ آفریدی فرام ڈیرہ اسماعیل خان کا ہے ،جی ہاں ڈیرہ اسماعیل خان جو مولانا فضل الرحمان صاحب کا آبائی شہر اور حلقہ ہے نئے متوقع چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحیٰ آفریدی کا تعلق اسی قصبے سے ہے ۔
جناب جسٹس یحیٰ آفریدی 23 جنوری 1965 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے قبائلی علاقے میں سردار قبیلے میں پیدا ہوئے انتہائی ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور ایچی سن کالج میں داخل ہوئے جہاں سے "او" اور "اے" لیول کا امتحان 1980 تا 1982  پاس کیا وہ ایچی سن کالج میں ہیڈ بوائے بھی رہے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن 1985 میں مکمل کی ، جس کے بعد 1988 میں پنجاب یونیورسٹی سے منسک لاء کالج میں داخلہ لیا جہاں سے ایل ایل بی کیا 1989 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کا امتحان بھی پاس کیا اور پھر برطانیہ کا سفر باندھا جہاں 1991 میں جیسز کالج کیمرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔
 اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے ایچی سن کالج سے عمر حیات گولڈ میڈل برائے سپورٹس حاصل کیا ، 1989 /90 میں انہیں برٹش فارن ایند کامن ویلتھ سکالر شپ کے لیے منتخب کیا گیا ، وہ کیمبرج یونیورسٹی پولو ٹیم کے بھی رکن رہے ،انہیں نوجوان وکیل کورس لندن کے لیے بھی منتخب کیا گیا جس کے بعد وہ عملی زندگی میں وکالت سے منسلک ہوئے 1991 میں  وہ خیبر پختونخواہ ہائیکورٹ کے وکیل بنے اور 2004 میں سپریم کورٹ میں بطور وکیل رجسٹر ہوئے وہ 1994 میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ ) میں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل رہے ، 1995 میں فیڈرل کونسل برائے گورنمنٹ آف پاکستان کی حثیت سے کام کیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1997 سے 2012 تک آفریدی ، شاہ ، من اللہ لاء فرم میں پارٹنر شپ بھی کی 15 مارچ 2010 کو پہلے ایڈیشنل جج اور15 مارچ  2012 میں مستقل جج پشاور ہائیکورٹ کی  حثیت سے حلف اٹھایا ، جہاں انہوں نے اپنی قابلیت کی بنیاد پر 30 دسمبر 2016 کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا ، وہ قبائیلی علاقے سے اس عہدے پر پہنچنے والی پہلی شخصیت تھے ، 28 جون 2018 کو انہیں سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا گیا جہاں وہ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ، وہ اس وقت سنیارٹی کے حساب سے تیسرے نمبر پر ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں 26 ویں ترمیم کے بعد انہیں حکومت کی جانب سے پہلی چوائس قرار دیا جارہا ہے ۔
26 ویں ترمیم کے بعد اب جب پارلیمنٹ کی کمیٹی یہ فیصلہ کرئے گی کہ تین سنیئر موسٹ جج میں سے کون چیف جسٹس ہوگا تو یحیٰ آفریدی کے منتخب ہونے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے پاس شائد فوجی طرز عمل کے مطابق سپریم کورٹ میں رہنے کا کوئی جواز باقی نا رہے کہ فوج میں "سپر سیڈ " جنرل ہو تو سنیئرز ماتحت کو سیلوٹ کرنے کے بجائے استعفیٰ  دینے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن یہاں کیا معاملہ ہوتا ہے صرف چند دن انتطار  اور ۔

دیگر کیٹیگریز: بلاگ
ٹیگز: