''جو لوگ سرائیکستان کو پنجاب اور جنوبی پنجاب کا نام دیتے ہیں ہم اُن کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ بلا تاخیر صوبہ سرائیکستان کا قیام عمل میں لا کر وفاق کو متوازن کیا جائے۔ سیاستدان الیکشن سے پہلے کیے گئے اپنے وعدے پورے کریں اور وسیب کے شناختی کارڈ سرائیکی میں بنائے جائیں اور ڈسٹرکٹ کے آگے صوبہ سرائیکستان لکھا جائے ، وگرنہ سیاستدانوں کے گریبانوں تک ہاتھ ڈالنے میں کوئی دیر نہیں لگےگی‘
ایسا کہنا ہے شہرملتان سے تعلق رکھنے والی چیرپرسن پاکستان سرائیکی پارٹی ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ کا وہ کہتی ہیں کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کا قیام ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر جنوبی پنجاب میں ہونے والے ہر الیکشن پر سیاستدان سیاست کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور بعد میں اس مسئلے کو پس پشت ڈال کر اپنے کیے گئے وعدوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں ، ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ کا کہنا ہے کہ ایک چھوٹی سی سرائیکی کمیونٹی کی جانب سے شروع ہونے والی اس تحریک نےگزشتہ کئی الیکشنز میں بڑی جماعتوں کے منشور میں بھی اپنی جگہ بنائی اور حالیہ الیکشنز کے جنوبی پنجاب میں جیت اور ہار کا فیصلہ بھی اس مسئلے کے گرد گھومتا تھا ، وہ کہتی ہیں سابقہ پی ٹی آئی کی حکومت نے جنوبی پنجاب کے باسیوں سے کیے گئے اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے 100 دن کا وقت مانگا تھا ، ان 100 دنوں میں صوبہ تو نہ مل سکا البتہ سیکرٹریٹ کا لالی پاپ دیا گیا انکا ماننا ہے کہ یے سیکرٹریٹ جنوبی پنجاب کے باسیوں کی محرومیوں کا ازالہ نہہیں کر سکتا جب تک اسکے پاس رولز آف بزنس کے تحت اختیارات ہی نہ ہو وہ کہتی ہیں قوم پرست رہنماوں کا ماننا ہے حالیہ حکومت اس سیکرٹریٹ کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علیحدہ صوبے کا کیا ہوگا،،؟ سابقہ و حالیہ حکومتوں کے وعدے اور دعوے کب وفا ہونگے ،،،؟ اور کب تک جنوبی پنجاب کے باسی علیحہدہ صوبے کے نام پر ووٹ دے کر مختلف پارٹیز کو آزماتے جائیں گے؟؟؟
جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کی تحریک کا پس منظر
شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب، محقق و چیرمین سرائیکستان قومی کونسل ظہور دھریجہ نے علیحدہ صوبے کی تحریک کا پس منظر پر بتاتے ہوئے 1818 کا زمانہ یاد دلا دیا ، وہ کہتے ہیں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1818ء میں رنجیت سنگھ سے نواب مظفر خان شہید کی مزاحمت صوبہ برقرار رکھنے کی تحریک تھی۔ سکھوں کے بعد 1849ء میں انگریز آئے تو انگریزوں سے ملتان کے گورنر مول راج کی مزاحمت بھی صوبہ ملتان برقرار رکھنے کے حوالے سے تھی۔ اسی دوران خواجہ فرید کا شعر ’’اپنی نگری آپ وسا توں، پٹ انگریزی تھانے‘‘ کا پس منظر بھی اپنی دھرتی، اپنا خطہ اور اپنا اختیار تھا۔ وہ تاریخ پر کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں وغیرہ سرائیکی وسیب کا حصہ تھے۔ 9 نومبر 1901ء کو انگریز سامراج وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے پشتونوں کو خوش کرنے کیلئے صوبہ سرحد قائم کیا تو بلا جواز طور پر سرائیکی خطے کا بہت سا علاقہ پشتونوں کے صوبے میں ڈال دیا، جس پر مسلسل چار ماہ احتجاج ہوتا رہا ۔ گرفتاریاں بھی ہوئیں، ریاست ٹانک کے نواب کو بھی گرفتار کرکے لاہور بند کر دیا گیا اور لاہور کی جیل میں ہی اُس کی وفات ہوئی۔ یہ بھی دراصل الگ صوبے کی مزاہمتی تحریک کا ہی پس منظر تھا۔
ظہور دھریجہ نے بتایا اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو قیام پاکستان سے پہلے بہاولپور الگ ملک تھا۔ سرائیکی قوم نے اپنا ملک بہاولپور پاکستان کو دیا تھا نہ کہ پنجاب کو۔ ریاست کا الحاق پنجاب سے نہیں پاکستان سے تھا۔ وہ کہتے ہیں یے حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے پہلے دن سے ہی فراڈ شروع ہوئے، وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ دو قومی نظریہ، کلمہ، قرآن، دین، ایمان سب کچھ لولی پاپ تھا۔ پاکستان کے نام پر ہمیں لوٹا گیا۔ ون یونٹ کا قیام بھی پنجاب کا فراڈ تھا۔ 1969ء میں یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑا تو ریاست بہاولپور کو پنجاب کے جہنم نما پیٹ میں ڈال دیا گیا۔ جس کے خلاف اہل بہاولپور نے احتجاج اور تحریک شروع کر دی۔ بہت سے لوگ شہید ہوئے۔ ہزاروں گرفتار ہوئے۔ پنجاب گورنمنٹ نے ظلم، زیادتی اور بربریت کی انتہاء کر دی۔ یہی پوائنٹ الگ صوبے کی تحریک کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
وہ کہتے ہیں گزشتہ چند برس قبل تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بہاولپور صوبہ محاذ کے اکابرین نے بہاولپور صوبہ محاذ کو ختم کرکے سرائیکی صوبہ محاذ بنایا اور آج تک سرائیکی صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری ہے۔ وہ ببانگ دہل کہتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ اس دوران ایجنسیوں کے ٹائوٹ محمد علی درانی نے اسٹیبشلمنٹ کی ایماء پر سرائیکی صوبہ تحریک میں چھرا گھونپا اور ایک بار پھر بہاولپور صوبے کا راگ الاپنا شروع کیا مگر بات بہت آگے تک جا چکی تھی۔ وسیب کے لوگوں نے اسے بد ترین شکست سے دو چار کرکے لاہور بھیجا۔ موجودہ صورتحال کی عکاسی ہوتے ہوئے معروف دانشور ظہور دھریجہ کا کہنا تھا کہ آج حکمرانوں کو ہر صورت صوبہ سرائیکستان بنانا ہو گا ورنہ پاکستان کی سالمیت برقرار نہ رہ سکے گی۔
سرائیکی صوبے کے نام پر سیاستدانوں کی جنوبی پنجاب میں سیاست
شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی جمشید رضوانی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس علاقہ کے سیاستدانوں کی اکثریت ہر دور میں علاقائی، قومیت یعنی نئے صوبوں کے قیام کے نام پر سیاست بھی کرتے رہے اور ووٹ بھی لیتے رہے ہیں۔ یہاں تک کے سیاستدان نئے صوبوں اور نئے یونٹس کے قیام پر لوگوں کو قائل کرکے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی لمبی تاریخ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ماضی میں پنجاب میں بہاولپور سابقہ ریاست کو صوبہ بنانے کے لئے بہاولپو صوبہ محاذ کے نام پر الیکشن میں حصہ بھی لیا گیا ، نشستیں بھی ملیں لیکن اسمبلی میں پہنچنے والوں نے 1973 کے آئین میں چار صوبوں پر تو دستخط کیے لیکن وہ اپنی سابقہ سیاست سے صوبہ نہ بنوا سکے ۔ بعد میں سرائیکی صوبہ محاذ ، سرائیکی قومی موومنٹ ، سرائیکی پارٹی ، سرائیکی ڈیموکریٹک پارٹی سمیت کئی جماعتیں سرائیکی صوبہ کے قیام کی جدوجہد میں لگی رہیں لیکن ان کے سیاسی کام کو کیش پیپلز پارٹی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز نے کیا ۔
جمشید رضوانی کہتے ہیں 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے سرائیکی علاقوں سے دو صوبوں کی بات اور پنجاب اسمبلی میں قرار داد منظورکرکے خوب کئش کرایا۔ پیپلز پارٹی نے صوبہ کے قیام کے لیے قومی پارلیمانی کمیشن بھی قائم کرایا۔ اس نے ایک ہی صوبہ کے قیام کی تجویز دی لیکن دو تہائی اکثریت کے حصول کی کوئی سنجیدہ کوشش کہیں نظر نہیں آئی ۔ وہ کہتے ہیں پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام پر اس علاقہ سے ارکان اسمبلی اپنے ساتھ شامل کیے اور بعد میں اپنی ہی پارٹی میں عہدے اور ٹکٹ دے کراس نام نہاد جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے تابوت کو دفن کر دیا ۔ وہ کہتے ہیں اسے اب سیاسی جماعتوں کی منافقت کہیں یا ان کی اپنی ترجیحات لیکن جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کسی سیاسی جماعت کی ترجیح پر کبھی رہا ہی نہیں ۔انکا کہنا ہے کہ اقتدار کے لیے پنجاب اسمبلی نے9مئی 2012سرائیکی اور بہاولپوردو نئے صوبے بنانے کی قرارداد اس لئے منظور کی تھی کہ ووٹ مل جائیں گے اس میں ن لیگ کو سو فیصد کامیابی ملی وعدے کے مطابق عمل ہونا چاہیئے تھا مگر ایسا نہ ہوا ۔ وہ کہتے ہیں جب پیپلز پارٹی دو چار قدم آگے بڑھ کر 2012 میں قومی اسمبلی میں 14ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیشن برائے قیام نئے صوبہ جات خاص کر سرائیکی اور بہاولپور بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی خوب کوشش کررہی تھی اور بات بھی کررہی تھی لیکن صرف ایشو کو مسلم لیگ ن پر دباؤ کے لیے پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے درمیان نئے صوبے کے قیام کیلئے معاہدہ کے مطابق 100دن کے اندر نئے صوبے کے قیام کیلئے روڈ میپ دینا تھا۔ تقریباً دو سال بعد صوبہ کی بجائے یکم جولائی 2020ء سے سرائیکی علاقوں کیلئے ایک سب سیکرٹریٹ دیا گیا لیکن اس کو اختیار نہیں دیا گیا اور نہ ہی با اختیار کرنے کے لیے رولز آف بزنس کی منظوری میں کوئی سنجیدگی دکھائی ۔ یہاں تک کہ ڈیڑھ سال میں جو نام نہاد اختیار دئیے وہ استعمال کرنے سے زبانی روک دیا گیا ۔
موجودہ حکومت کا سیکرٹریٹ رول بیک کرنے کی کوشش
چیرمین سرائیکستان قومی اتحاد خواجہ غلام فرید کوریجہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا جنوبی پنجاب سے سیکرٹریز کو ختم کر کے سپیشل سیکرٹریز بٹھانا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ موجودہ حکومت سیکرٹریٹ کو رول بیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ کہتے ہیں جہاں تک سول سیکرٹریٹ کی بات ہے تو سول سیکرٹریٹ کیلئے قانون سازی کی گئی رولز آف بزنس تیار ہوئے اور یہ ادارہ قانونی طور پر منظور شدہ ہے اس لیے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا ، خواجہ غلام فرید کوریجہ کہتے ہیں سول سیکرٹریٹ پر 350 کروڈ روپے سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے۔ سول سیکرٹریٹ کے بارے میں جو قانون سازی ہوئی اُس میں الگ بجٹ اور ملازمتوں کا الگ کوٹہ رکھا گیا تھا اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو یے نہ صرف وسیب دشمنی ہو گی بلکہ آئین و قانون سے بھی غداری ہو گی۔
وہ کہتے ہیں اس سیکرٹریٹ سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف وسیب کے لوگوں کی نفرت میں اضافہ ہو گا اور وہ عوامی نمائندے جو ان مسائل پر خاموش ہیں لوگ ان کا گریبان پکڑیں گے اور ان کو گندے انڈے ماریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سرائیکی وسیب کی تہذیب، ثقافت اور مہمان نوازی کا غلط فائدہ نہ اُٹھایا جائے، وسیب کے لوگوں سے بنگالیوں والا سلوک نہ کیا جائے،وہ کہتے ہیں کہ ہم پچاس سال سے حکمرانوں کو باور کرا رہے ہیں اور ہم نے اپنا مقدمہ جیتا بھی ہے اور اپنا حق تسلیم بھی کرایا ہے۔ اگر بے بصیرت حکمران سرائیکی قوم سے بنگالیوں والی روش جاری رکھیں گے اور اُن کو دیوار سے لگائیں گے تو پھر سرائیکی وسیب کے لوگوں کو بھی اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ بنگالیوں والی سوچ سوچیں اور اُن کی طرح اپنے حقوق اپنی بقاء اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے جدوجہد کریں۔
جوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے رول بیک کی کوشش پر حکومت کے خلاف ہائی کورٹ میں جاری کیس
جمشید رضوانی کا کہنا ہے کہ موجودہ مسلم لیگ نواز کی حکومت صوبہ تو کیا اس جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کو بھی وسائل کا ضیاع سمجھتی ہے اور رہی سہی کسر یہاں کے سیکریٹریز کو مزید بے اختیار کر کے یا انہیں تبدیل کر کے ان کی جگہ اب سپیشل سکریٹریز سے کام چلانا چاہتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں بہاولپور سے سابق وفاقی وزیر برائے خوراک سمیع چوہدری اور ملتان سے بحیثیت شہری انہوں نے خود بحیثیت شہری الگ الگ درخواستیں دائر کی جس میں بتایا گیا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے اس سیکرٹریٹ کو ختم کیا جا رہا ہے اور افسران کو بے اختیار کیا جا رہا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اس میں ایک درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کو یہ یقین دہانی تو کرا دی کہ یہ سیکرٹریٹ ختم نہیں کیا جا رہا لیکن عملا بے اختیار سیکرٹریٹ حکومت کی خواہش بھی ہے اور کوشش بھی۔ اس لیے موجودہ حکومت جنوبی پنجاب سکرٹریٹ کی ملتان کی عمارت میں چند افسروں کو مراعات اور نام کا عہدہ دے کر عدالت کے سامنے اپنا بھرم رکھے گی اور لاہور کا سول سیکرٹریٹ عملا تخت لاہور ہی رہے گا،
قوم پرست رہنماوں کا موجودہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حالات پر رد عمل
قوم پرست رہنما صدر سرائیکستان قومی کونسل پاکستان پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی نے سانحہ موسیٰ خیل کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی شناخت نہ ہونے کا باعث قرار دے دیا وہ کہتے ہیں سرائیکیوں کی نسل کشی کا کون جواب دے گا ؟ وسیب کے لوگ کب تک لاشیں اٹھائیں گے ؟ بلوچستان میں وسیب کے لوگ سالہا سال سے پنجاب کے نام پر قتل ہوتے آرہے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی کا کہنا ہے کہ سرائیکستان پاکستان کا دل ہے اور یہ چاروں صوبوں کا سنگم بھی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی دیگر قوموں کی سرحدیں اور رشتہ داریاں ہمسایہ ممالک بھارت، افغانستان، ایران کے ساتھ ہیں۔ صرف سرائیکی قوم ایسی ہے جس کا سب کچھ پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی خطہ دفاعی حصار کے طور پر تمام صوبوں کو مضبوط اور قائم رکھ سکتا ہے مگر سب سے زیادہ کمزور اسی خطے کو بنایا گیا ہے۔ جس کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ مسئلے کا حل صرف صوبہ سرائیکستان ہے، مقتدر قوتوں اور پالیسی سازوں کو اگر یہی بات سمجھ نہ آئی تو یہ ملک خدا نہ کرے کو مشرقی پاکستان کی طرح دوبارہ حادثے کا شکار نہ ہو جائے
چیئرمین سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی رانا محمد فرازنون کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی اتحادی ہیں ۔ مرکز اور صوبے میں ان کی حکومتیں ہیں ۔وہ کہتے ہیں یے دونوں سیاسی پارٹیاں جنوبی پنجاب سے کیے گئے وعدے کے مطابق وسیب سے وعدہ وفا کریں یا پھر مستعفی ہو جائیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وسیب کے لوگ بلوچستان میں سالہا سال سے قتل ہوتے آرہے ہیں آج تک ایک بھی قاتل گرفتار نہیں ہوا۔ نہ کوئی تفتیش سامنے آئی اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا۔۔ سرائیکیوں کی نسل کشی پر صوبائی اسمبلیاں ، قومی اسمبلی اور سینٹ سب خاموش ہیں، ایسی صورتحال میں وہ وسیب کے باقی باسیوں کی طرح ان نام نہاد جمہوری اداروں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے کردار کو مسترد کرتے ہیں۔ رانا فراز نون کا کہنا ہے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت سرائیکی وسیب کے قوم پرستوں کو اعتماد میں لے۔ اور علیحدہ صوبے کی جانب قدم رکھے۔
صدرسرائیکی لوک سانجھ عاشق بزدار کا کہنا ہے اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگ پنجاب کے نام پر قتل ہورہے ہیں جواپنے آپکو پنجابی کہلوانا پسند ہی نہیں کرتے نہ وہ پنجابی ہیں وہ تو سرائیکی ہیں جبکہ سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سید حامد سعید کاظمی اور سابق ایم این اے ملک احمد ڈیر جیسے رہنماؤں نے اس واقعہ کو پنجابیوں کے قتل کا نام دیا ہے جو کہ ہمارے زخموں پر نمک پاشی مترادف ہے۔ عاشق بزدار کہتے ہیں جو لوگ سرائیکستان کو پنجاب اور جنوبی پنجاب کا نام دیتے ہیں ہم اُن کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ بلا تاخیر صوبہ سرائیکستان کا قیام عمل میں لا کر وفاق کو متوازن کیا جائے۔ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو ختم کیا جائے اور پاکستان میں تمام قوموں کو امن ومحبت کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے۔
معروف سرائکی دانشور و چیرمین سرائیکستان قومی کونسل ظہور دھریجہ کا کہنا ہے کہ صوبے بنانے کے حوالے سے ایک آئینی طریقہ کار ہے کہ پہلے مقننہ صوبائی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے بل پاس کرے پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے بل پاس کریں گے اور مقررہ معیاد کے اندر صدر مملکت دستخط کریں گے تو نیا صوبہ بن جائے گا وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سرائیکی صوبے کا بل سینٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاس ہوا اور ایک آئین ساز ادارے کی طرف سے سرائیکی صوبے کو آئینی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ ہم نے صوبہ بنا دیا ہے مگر قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے معمولی سا کام رکا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں مسئلہ کا حل اگر موجودہ حکومت چاہے تو باآسانی نکل سکتا ہے آج (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی اتحادی ہیں بلا تاخیر قومی اسمبلی سے صوبے کا بل پاس کرکے صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ ظہور دھریجہ کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وسیب کے لوگ اُس پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کریں گے جو سرائیکی قوم کو اُس کا حقسے محروم کرے ۔ وہ کہتے ہیں صوبہ سرائیکستان کیلئے اقتدار پرست سیاسی جماعتوں نے لولی پاپ دیئے، کروڑوں سرائیکی عوام سے فریب کیا اور اپنے وطن وسیب سے غداری کی لیکن اس کی ان سب کو سزا ملی ہے اور آگے بھی ملے گی البتہ صوبہ سرائیکستان کے قیام کیلئے محدود وسائل کے باوجود قوم پرست سرائیکی جماعتوں کی جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔ وہ کہتے ہیں منصفانہ تقسیم کے تحت سرائیکی صوبہ مسائل کا حل ہے ۔
سرائیکی صوبے کا مطالبہ کیوں ؟
صدر پاکستان سرائیکی پارٹی ملک اللہ نواز وینس کہتے ہیں پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے پنجاب کو بہت بڑا صوبہ بنا دیا گیا ہے۔ 38 فیصد آبادی کے تین اور 62 فیصد آبادی کا ایک صوبہ بدترین مذاق ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک پہیہ ٹریکٹر کا اور تین پہیے کار کے ہوں تو گاڑی کیسے چلے گی؟ وہ کہتے ہیں پنجاب کے 2 صوبے بھی بنائے جائیں تو وہ بھی سندھ سے بڑے ہوں گے۔ اگر پنجاب کے 3 صوبے بنائے جائیں تو وہ خیبر پختونخواہ سے بھی بڑے ہونگے ،وہ کہتے ہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان لیٹر 2010 کے مطابق پاکستان میں 18 کروڈ آبادی کے وقت سرائیکی آبادی 8 کروڈ یعنی کل آبادی کا 44 فیصد تھی ۔ ملک اللہ نواز وینس کا کہنا ہے کہ پنجاب کا صرف ایک چوتھائی حصہ ماضی کے صوبہ لاہور کے صرف 5 اضلاع لاہور ،شیخوپورہ ، گجرات ، گوجرانوالہ ، اور سیالکوٹ پر مشتمل ہے ۔ باقی ¾ حصہ سرائیکی وسیب یعنی پرانا صوبہ ملتان کے اضلاع ملتان ڈویزن ،ڈیرہ غازی خان ڈویزن، بہاولپور ڈویزن، فیصل آباد ، اوکاڑہ ،ساہیوال ،جھنگ ، بھکر اور میانوالی وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ۔ وہ ہمسائے ملک کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تقسیم کے بعد ہندوستانی پنجاب جو پاکستانی پنجاب کا نصف سے بھی کم ہے کہ چار صوبے پنجاب، ہریانہ، ہماچل اور دہلی بنے۔ جبکہ پاکستان میں مزید صوبے بنانے کی بجائے بہاولپور کو بھی ہڑپ کرلیا گیا جس سے خطرناک حد تک وفاق عدم توازن ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ مرکز سے آبادی کی بنیاد پر این ایف سی ایوارڈ کا بہت زیادہ حصہ لیتے رہے ہیں مگر سرائیکی وسیب کو اس کے جائز حصے سے محروم رکھا گیا ہے جس کا گواہ پچھلے تمام بجٹ اور موجودہ بجٹ ہے۔ ملک اللہ نواز وینس کا ماننا ہے کہ صوبائی بیورو کریسی سرائیکی وسیب کا استحصال کر رہی ہے۔ یے لوگ پلاننگ اور منصوبہ سازی سے اپنے علاقوں کی ترقی اور سرائیکی وسیب کی تنزلی کر رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں حقیقیت تو یے ہے کہ لاہور اور پشاور میں وسیب کے لوگوں کی توہین کی جاتی ہے۔
آزادی سے پہلے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مذہبی بنیاد پر استحصال کیا جاتا تھا۔ اس حق تلفی اور نا انصافی سے بچنے کیلئے مسلمانوں نے الگ ملک کا مطالبہ کیا۔ ملک بننے کے بعد سرائیکی وسیب کا اقلیتوں سے بھی بڑھ کر معاشی معاشرتی، تہذیبی و ثقافتی استحصال کیا گیا ہے۔ ہم پھر بھی علیحدہ ملک نہیں علیحدہ صوبہ مانگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک سرائیکی وسیب اور سرائیکی عوام کو تعلیم ، اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس لیے ہم جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی بنیاد پر اپنے علیحدہ صوبے سرائیکستان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ملک اللہ نواز وینس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے حالیہ حکومت سے درخواست کی کہ خدارا سادہ لوح عوام کو بیوقوف نہ بنایا جائے نئے صوبے اور علاقے کی عصبیت کے نام پر بلیک میلنگ کی سیاست نہ کی جائے اعلیٰ جمہوری و سیاسی روایات کی بنیاد پر سچے وعدے کئے جائیں جن پر کل عمل ہو سکے اور ملک میں بدامنی کے بجائے امن و سکون قائم رہ سکے ووٹرز بھی ووٹ دیتے وقت جھوٹے اور بلند بانگ وعدوں اور لچھے دار تقریروں، ریلیوں، جلسوں اور دولت کی طاقت سے مرغوب ہو کر ووٹ نہ دیں بلکہ مخلص و محب وطن سچے لوگوں کا انتخاب کریں ۔
نوٹ :وسیم شہزاد (متان) رپورٹر کاتعلق ملتان سے ہے،گزشتہ 9 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، سیاست، ماحولیات ، علاقائی و سماجی مسائل ، تعلیم ، کلچر ادب ، سیاحت و آثار قدیمہ ، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے رہے ۔