فائز عیسیٰ کیس۔۔ جج صاحبان میں تکرار،جسٹس مقبول باقر اٹھ کر چلے گئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) جسٹس فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز میں اختلاف،،، جسٹس مقبول باقر بنچ سے اٹھ کرچلے گئے جس کے بعد سماعت کو کچھ دیر کیلئے ملتوی کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت کی ۔ کمرہ عدالت میں وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کے دلائل کے دوران تلخ صورتحال پیدا ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ میں 50 بار کہہ چکا کیس جلد ختم کریں,ہم دوسری سائیڈ کو بھی وقت کم ہونے کا کہہ چکے۔جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ کیا بات ہوئی کہ سینئر کا احترام نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا میں عامر رحمان صاحب سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا آپ میری بات میں مداخلت نہ کریں۔ جس پر جسٹس منیب اختر بولے میں سوال پوچھنا چا رہا ہوں، یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کسی سینئر کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ نہیں ہے۔یہاں دھونس زبردستی نہیں چلے گی،کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے، جسٹس مقبول باقر نے پنسل میز پر پٹخ دی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے جسٹس مقبول باقر سے مکالمہ کیا کہ ہمارے پاس دو گھنٹے باقی ہیں آپ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کیوں روک رہے ہیں؟جس پر جسٹس مقبول باقر پینسل ٹیبل پر مارتے ہوئے غصے سے اٹھ گئے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا کہ بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں اٹھ کر چلا جاؤں گا،جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا اٹھ کر تو میں بھی جا سکتا ہوں۔ حکومتی وکیل نے کشیدگی کم کرنے کیلئے عدالت کو 10 منٹ کا وقفہ لینے کا مشورہ دیا جس پر جسٹس مقبول باقر بولے دس منٹ کے وقفے سے کیا ہوگا؟ جسٹس عمر عطابندیال نے ساتھی ججز کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا دس منٹ کا وقفہ لے لیتے ہیں۔ جس پر جسٹس مقبول باقر اٹھ کر چلے گئے۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے۔روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لیکر آئے ہیں۔ حکومتی وکیل نے کہا جسٹس مقبول باقر کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ جسٹس مقبول باقر بنچ کی محبوبہ ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔
عامر رحما ن نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا میں آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات پر بات کروں گا۔کہا جا رہا ہے کہ سرینا عیسیٰ کا کیس ایف بی آر کو نہیں بھیجا جاسکتا۔سپریم کورٹ کے اختیارات پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بولنے کی کوشش کی جس پر عدالت نے انہیں چپ کرادیا۔ جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دئیے کہ قاضی صاحب آپکی بہت مہربانی بیٹھ جائیں، بار بار کارروائی میں مداخلت نہ کریں۔
قبل ازیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا آف شور پراپرٹی تسلیم شدہ حقیقت ہے۔بیرون ملک جائیداد سے انکار نہیں کیا گیا۔عدالت نے درست طور پر تحقیات کا حکم دیا۔ایف بی آر کو ٹائم فریم معاملے کی حساسیت کی وجہ سے دیا گیا۔سرینا عیسیٰ کو سماعت کا پورا موقع دیا گیا تھا۔ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے۔باضابطہ سماعت کا طریقہ کار کیا ہوگا یہ تعین کرنا عدالت کا کام ہے۔
عامر رحمان نے مزید کہا سرینا عیسیٰ کیلئے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی تھا، عدالت نے سرینا عیسیٰ کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا،سماعت کی ضرورت کسی کے خلاف فیصلہ دینے کیلئے ہوتی ہے،کیس ایف بی آر کو بھجوانے سے پہلے بھی سرینا عیسی کو سنا گیا۔وفاقی حکومت نے کوئی نظر ثانی درخواست دائر نہیں کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دئیے کہ ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے۔حکومت صرف کیس لٹکانے کی کوشش کررہی ہے۔حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دئیے کہ سرینا عیسیٰ نے سماعت نہ ہونے کے حوالے سے قانونی حوالے نہیں دئیے۔ وکیل وفاقی حکومت نے کہا میرے دلائل پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ایسا ہی کرنا ہے تو ہم سے تحریری دلائل لے لئے جائیں۔ جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے کہا دلائل پر اعتراض نہیں ہمیں آپکی معاونت چاہیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میرے کنڈکٹ پر بات کی ہے۔جس پر ،عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات غیر مناسب تھی۔ اس موقع پر جسٹس منظور ملک نے کہا عامر رحمان صاحب آپ اچھے انسان ہیں بات ختم کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ جس عدالتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ زیر سماعت مقدمے سے مختلف ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف صدارتی ریفرنس اکثریتی ججز نے خارج کردیا تھا۔گھر میں بیٹھی جج کی فیملی کےخلاف کارروائی شروع ہو گئی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایف بی آر خود کارروائی شروع کر سکتی ہے یا نہیں یہ ہمیں معلوم نہیں۔ایف بی آر نے جج صاحب کے اہل خانہ کےخلاف تحقیقات ہمارے حکم کی روشنی میں شروع کیں۔صدارتی ریفرنس اے جج کیخلاف تھا کارروائی بی کے خلاف شروع ہوگئی۔کسی ایسے کیس کی قانونی مثال دیں کہ کیس خاوند کے خلاف ہو اور کارروائی اس کی اہلیہ کے خلاف شروع ہو جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آف شور جائیدادوں کےخلاف ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہین عدالت کا مرتکب ہوتا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیتا تو بات درست تھی۔ایف بی آر کو تحقیقات کرنے کا حکم سپریم کورٹ کی طرف سے دیا گیا۔سپریم کورٹ نے تو وہ اختیار استعمال کیا جو سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار تھا۔ہمیں ان نکات پر معاونت فراہم کریں۔