(24 نیوز)بھارتی حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے معروف کاروباری شخصیت اور بایو کنٹینمنٹ کمپنی کے سی ای او روی کمار تُمّلاچارلا نے حال ہی میں لنکڈ اِن پر ایک ایسا بیان دیا جو سوشل میڈیا پر بحث کا سبب بن گیا ہے، انہوں نے بھارت کی تعطیلات پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں ملک کی پیداواری صلاحیت میں کمی کا سبب قرار دیا۔
اپنی پوسٹ میں انہوں نے بھارت کی تعطیلات کی بھرمار کو ملک کی پیداواری صلاحیت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف اپریل 2025 میں ہی ’دس سے زائد تعطیلات‘ نے دفتری کام کو ہفتوں تک مفلوج کر کے رکھ دیا ان کا کہنا تھا کہ تعطیلات کے بوجھ، اختیاری چھٹیوں اور ویک اینڈز کے امتزاج نے کام کی روانی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
مزید پڑھیں:IPL:شبمن گل شادی کے سوال پر پریشان
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ’ہم بھارت کی ثقافتی اور مزہبی عظمت کا احترام کرتے ہیں، مگر جب یہ چھٹیاں کام کو روک دیں اور ترقی کی راہ میں حائل ہو جائیں تو ہمیں سوچنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’چین آج ہم سے 60 سال آگے ہے کیونکہ انہوں نے معیشت کو ترجیح دی اسکے ساتھ ہی روی کمار نے وزیراعظم نریندر مودی اور لیبر منسٹر سے مطالبہ کیا کہ وہ تعطیلات کے نظام کا ازسرِنو جائزہ لیں تاکہ کام اور آرام کے درمیان توازن قائم ہو سکے۔
تاہم ان کا یہ بیان سوشل میڈیا صارفین کو ہضم نہ ہو سکا۔
ایک صارف نے تبصرہ کیاجب تک تعطیلات کسی کی تنخواہ یا ترقی پر اثر نہ ڈالیں، لوگ شاذ و نادر ہی ان پر اعتراض کرتے ہیں۔
اسے بھی پڑھیں:آئی پی ایل میں شکست،پنجاب کنگزکے کپتان کی بہن تنقید کرنے والوں پر برس پڑیں
ایک اور صارف نے طنزیہ لکھا کہ یہ 2025 ہے، اے آئی، آٹومیشن، اور سمارٹ ورک فلو ٹولز موجود ہیں مسئلہ تعطیلات نہیں، قیادت میں لچک اور پلاننگ کی کمی ہے۔
کسی نے کہا، ’سی ای اوز کو عام مزدوروں کی زندگی کا اندازہ نہیں۔ ان کے مقاصد الگ ہوتے ہیں۔ ایک عام ملازم کے لیے گھر اور کام کا توازن زیادہ اہم ہے۔
اپنے نقادوں کے جواب میں روی کمار نے کہا، ’ہمیں نوکری تلاش کرنے والے نہیں بلکہ نوکری پیدا کرنے والوں کی طرح سوچنا چاہیے، ہماری بزرگ نسل نے بھوک و افلاس سے جنگ لڑی، اور آج ہم آرام ڈھونڈ رہے ہیں مگر پھر بھی مطمئن نہیں ترقی چیلنج اور مقصد سے آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی اپنی جگہ، مگر یہ سڑکیں نہیں بنا سکتا، سرحدوں کی حفاظت نہیں کر سکتا، یا مریضوں کا علاج نہیں کر سکتابھارت آج بھی ان لوگوں پر چلتا ہے جو تعطیلات کے دوران بھی کام کرتے ہیں تاکہ باقی لوگ آرام کر سکیں۔
اختتام پر انہوں نے ایک سوچ انگیزسوال اُٹھایا، کیا ہم تعطیلات میں حد سے تجاوز کر رہے ہیں؟ کیا ہم ان کی اصل قدر پہ غور کرتے ہیں یا صرف طویل ویک اینڈز کے مزے لیتے ہیں؟