افغان عوام موجودہ پیچیدہ صورتحال میں شدید ذہنی دباؤ  کا شکار ،پروگرام ’ڈی این اے‘ میں تجزیہ کاروں کی رائے

Aug 22, 2021 | 00:17:AM

( 24 نیوز )  افغانستان میں طالبان کا تسلط  اور حکومت سازی کا مرحلہ طے ہونے میں تاخیر  کا  کا باعث کچھ  بھی ہو لیکن چالیس برس سے  غیر ملکی قوتوں کےخلاف برسر پیکار افغان عوام  اس پیچیدہ صورتحال میں شدید ذہنی دباؤ  کا شکار ہیں.  امریکا اور نیٹو ممالک بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی حکومت افغانستان میں امن و امان کی بجائے انتشار  کا موجب ہو گی, اسی بنا پر مختلف ممالک کو افغان مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں کھولنے پر قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.

24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں  سلیم بخاری ، افتخار احمد ، پی جے میر اور جاوید اقبال نے مستقبل کے حوالے سے  خدشات کا اظہار کیا  ہے۔افتخار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اور حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے کہ پہلے تو  معید یوسف  کہتے ہیں کہ پاکستان کسی قیمت پر مزید مہاجرین کی آمد قبول نہیں کرے گا لیکن ساتھ ہی سات لاکھ مہاجرین کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں۔  پارلیمنٹ  یا عوام کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا  ۔افتخار احمد نے افغانستان میں پل چرخی  جیل سے تحریک طالبان پاکستان کے کارکنوں کی رہائی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔  پی جے میر نے کہا حکومت نے متوقع افغان مہاجرین کے لئے پیش بندی نہیں کی اور نہ ہی مہاجر کیمپ بنائے،  اگر پہلے کی طرح مہاجرین پورے ملک میں پھیل گئے تو امن و امان کے مسائل  کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر شہری علاقوں میں یہ مہاجرین آئیں گے تو ان کی واپسی ممکن نہیں ہو گی۔  سلیم بخاری  نے کہا کہ امریکا نے افغان مہاجرین کے لئے بارڈر کھولنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا مگر ہمارے وزیر اعظم کا ’ابسولیوٹلی ناٹ ‘ کدھر گیا  ۔تیرہ ممالک نے مہاجرین کو قبول کرنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے  ۔ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ خوفناک صورتحال سامنے آئی ہے کہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے  نے طالبان کے خلاف اعلان جہاد کر دیا ہے،  اگر وادی پنج شیر سے طالبان کے خلاف مزاحمت سامنے آتی ہے۔ سلیم بخاری نے خدشات کا اظہار کیا  کہ ہمیں دوبارہ امریکا کے چنگل میں ہر گز نہیں پھنسنا چاہیے ورنہ پاکستان کو انہیں حالات کا دوبارہ سامنا کرناپڑے گا ۔جاوید اقبال نے  کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان  میں خانہ جنگی  کی کوشش جاری رکھیں گے  جو ہمارے لئے بھی مشکلات کا باعث ہو گا ۔  ملک میں بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ہر پاکستانی  شدید اذیت سے دوچار ہے  ۔سلیم بخاری نے مہنگائی  کے حوالے سے حکومت کو  وعدے یاد دلائے ۔ افتخار احمد نے  کہا کہ حکومت نے کوئی وعدہ نہیں کیا کہ مہنگائی پر قابو پایا جائے گا ۔حکومت نے تو کہا کہ وہ چوروں ، لٹیروں اور بدعنوان عناصر پر ہاتھ ڈالے گی ۔جبکہ پی جے میر کا کہنا تھا کہ  اس ملک میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا فعال نہ ہونا اور مافیا کا طوقتور ہونا  بھی مہنگائی کا موجب ہے۔  سلیم بخاری کا کہنا تھا مافیا اس وقت طاقت ور ہوتا ہے جب حکومت میں اس پر قانون کا شکنجہ کسنے کی سکت نہ ہو اور حکومت مافیا کے سامنے یرغمال بن جائے  ۔پینل نے  مینار پاکستان سمیت اوباش نوجوانوں کی جانب سے  خواتین کو  ہراساں کرنے کی مذمت کی اور  زور دیا کہ  معاشرے میں جب تک ایسے عناصر  کو عبرت کا نشان نہیں بنایا جائے گا  خواتین کے خلاف جرائم کا کا سدباب ممکن نہیں ہے ، پینل نے مینار پاکستان واقعہ پر  وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے پولیس افسران کے خلاف ایکشن اور معاشرے کی تنزلی پر بھی گفتگو کی۔

  پی جے میر کا کہنا تھا ذبیح اللہ مجاہد  طالبان کے ترجمان ہیں انہہوں نے گواتتا نامو بے میں قید کاٹی ہے  انہوں نے  اپنی پریس کانفرنس میں خواتین اور ان کے حقوق  کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی  مگر اب وہ کہتے ہیں کہ خواتین کو حقوق شریعت کے مطابق دئیے جائیں گے  ۔یہ انقلاب ہے  ایسا انقلاب جس میں طالبان امریکا  کے ہیلی کاپٹر اور جہاز اُڑا رہے ہیں ، جدید جنگی ساز و سامان سے لیس ہیں ، سلیم بخاری نے کہا کہ طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے میں یہ طے تھا کہ وہ مخلوط حکومت بنائیں گے لیکن وہ خود ہی فیصلے مسلط کر رہے ہیں۔ انہوں نے ملک کا نام بدلا ، جھنڈا بدلا  ان کے ارادے بتا رہے ہیں کہ انہوں نے خود ہی فیصلے کرنے ہیں اور کسی کو حکومت سازی کے لئے اعتماد میں نہیں لینا جس کے باعث افغان عوام کی کثیر تعداد میں غصہ پایا جاتا ہے ۔ افتخار احمد نے کہا کہ امریکا سے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ بھاگ گیا اور سپر پاور کو شکست ہو گئی ، یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا نے بیس برس تک روس ، چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کو خطے میں داخل نہیں ہونے دیا  اور اپنا تسلط قائم رکھا ،اب امریکا میں یہ سوچ بھی  پروان چڑھ رہی ہے کہ جدید اسلحہ اور جنگی ساز و سامان  تباہ کر دیا جا ئے، جس پر سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اگر امریکا نے یہ سب تباہ کرنا ہوتا تو افغانستان میں چھوڑا ہی کیوں، یہ ایک مشکوک طرز عمل ہے تا کہ وہاں خانہ جنگی جاری رہے  ۔

مزیدخبریں