میں جب برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلباء یونین کا صدر بنا تو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے مجھے مبارکباد کی ٹویٹ کی تو میں نے جواب میں یہی کہا کہ پاکستان میں بھی طلباء یونین کو بحال کیا جانا چاہیے ۔مجھے یاد ہے لاہور میں جب رہتے تھے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھے تو کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو داتا صاحب سے کھانا مل جاتا تھا میرے بھتیجے ساتھ آئے ہوئے ہیں انہیں بتاتا ہوں کہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔میرے جیسا طالبعلم اگر دنیا کی بہترین یونیوسٹی کی ایک تاریخی طلباء یونین کا صدر بن سکتا ہے تو پاکستان کا ہر نوجوان اتنا ہی قابل ہے اگر اسے ممکن مواقعے فراہم کیے جائیں ۔ٹاٹ کے سکول سے تعلیم یافتہ نوجوان جو اس علاقے سے نکل کر آیا ہے جہاں امید دم توڑ رہی ہے جہاں ہر طرف مایوسی ہے آج وہ المصطفی ٹرسٹ کی جانب سے اس کے اعزاز میں ہونے والی تقریب میں گفتگو کر رہا ہے تو لاہور کے تمام بڑے دانشور عقیدت سے سُن رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں واہ بھئی کمال کر دیا لڑکے اسی جذباتی ماحول میں سابقہ ڈی جی پلاک صغرٰی صدف کہنے لگیں بہت خوشی کی بات ہے کہ محترمہ بینظیر کے بعد آپ صدر بنے ہیں ہماری دعا ہے ہم آپکو بھی وزیر اعظم بنتا دیکھیں تو اسی پر سنیئر صحافی ایثار رانا کہنے لگے بھئی کبھی بھی نا آنا ہم آپکو زندہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ہمارے سسٹم میں قابل آدمی کی جگہہ نہیں ہےاور ہم اپنے وزیر اعظموں کو لٹکاتے ہیں۔آپ وہیں رہو ہم آپ کو دیکھ کر خوش ہیں ۔نوجوان نے اطمینان کا اظہار کیا اور بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اکتیس وزیر اعظم پیدا کیے آپ دیکھیے کہ ان کے لیڈرز کہاں پیدا ہوتے ہیں اور ہمارے کہاں تیار ہوتے ہیں نوجوان بتا رہا تھا کہ فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا اہم ایجنڈوں میں شامل ہے 1823میں یونین کی بنیاد رکھی گئی آزادی اظہارِ رائے پر اسکی بنیاد رکھی گئی معروف تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی ،سینئر صحافی سلمان غنی ،ایم ڈی المصطفی ٹرسٹ صدف جاوید اور دیگر اہم شخصیات بھی اپنے اظہار کے دوران اسرار کاکٹر صاحب کو تھپکی دیتی نظر آئیں جہاں ملک میں تین کروڑ کے بچے سکول سے باہر ہوں ،لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بیروزگار ہوں ،قومی و بین الاقوامی سطح پر کھیلوں میں نمائندگی کی شرح بھی بہت کم ہو وہاں پر ارشد ندیم اور اسرار خان کاکٹر صاحبانِ اقتدار کی آنکھ کا تارہ ہو جاتے ہیں ۔پھول ،پروٹوکول اور کروڑوں روپے پیش کیے جاتے ہیں کیونکہ عزیزان ویسے بھی کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں ناکامی تو یتیم ہی رہتی ہے اور پاکستان جیسے کمزور معاشروں میں تو بالخصوص ہی ایسا ہوتا ہے بحرحال اسرار خان کاکٹر جیسے نوجوانوں کو اپنا ہیرو بنائیں اور ڈٹ جائیں لگے رہیں ایک دن آپ بھی صاحبانِ اقتدار کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گے لہذا بس کامیاب ہونے کی ٹھان لیں کم وسائل اور برے حال کے باوجود اسرار خان کاکٹر نے دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں کامیابی کا جھنڈا گاڑھا ہے آئیں اس کو اپنا رول ماڈل مانتے ہوئے ہم بھی کوشش کرتے ہیں کیا پتا چشمہ پھوٹ پڑے ۔تالیوں کی گونج میں سب نے کھڑے ہو کر بلند آواز میں کہا اسرار شکریہ،اسرار زندہ آباد!
ٹاٹ سے ٹھاٹ تک!
تحریر ۔۔سید شہزاد روشن گیلانی
Aug 22, 2024 | 12:57:PM